|تحریر: عثمان سیال|
انقلابِ روس انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے جس میں پہلی دفعہ سرمائے پر محنت کی فتح ہوئی۔ اکثریت نے اقلیت کی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ اسے تاریخ میں بالشویک یا اکتوبر انقلاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے انسانی تاریخ پر ان گنت نقوش چھوڑے۔ انقلاب روس محنت کشوں اور بالشویک پارٹی (انقلاب روس کی قیادت کرنے والی پارٹی، جس کے قائد لینن اور ٹراٹسکی تھے) کا وہ کارنامہ ہے جس نے تاریخ کے دھارے کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا۔
انقلاب کے بعد تمام ذرائع پیداوار (فیکٹریاں، جاگیریں، بنک وغیرہ) مزدور ریاست کے ذریعے محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے لیے گئے اور تمام وسائل کو پورے سماج کی منصوبہ بند تعمیر و ترقی کیلئے صَرف کیا جانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی سالوں میں وہ روس جو موجودہ پاکستان سے بھی کہیں زیادہ پسماندہ تھا، ایک بڑی معاشی، صنعتی اور فوجی طاقت بن گیا۔
یہ انقلاب صرف روس تک محدود نہیں رہا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں بھی اس کے اثرات پھیلنے لگے۔ مثلاً 1919ء میں جرمنی میں انقلابی تحریک کا آغاز ہو گیا اور جرمنی کے بادشاہ کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑ گیا۔ انقلاب روس پوری دنیا کے محنت کشوں، کسانوں اور مظلوموں کیلئے ایک مثال بن چکا تھا جو کہ حکمرانوں کیلئے انتہائی خطرناک تھا۔ لہٰذا جہاں ایک طرف انقلابی روس کی معاشی ناکہ بندی کر دی گئی اور سامراجی طاقتوں کی جانب سے اس پر خانہ جنگی مسلط کی گئی وہیں پوری دنیا کے حکمرانوں نے مل کر انقلاب روس اور اس کے قائدین کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹا پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا۔
یہ ہمیشہ سرمایہ دار حکمران طبقے کا وطیرہ ہوتا ہے کہ محنت کشوں کی جدوجہد کو اول تو کامیاب ہونے سے روکنے کیلئے ہر طرح کا جبر کرو، لیکن اگر اس کے باوجود وہ کامیاب ہو جائے تو پھر اسے بدنام کرو۔ اس طرح یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں اور میڈیا کے ذریعے نا صرف انقلاب روس کو بدنام کیا گیا بلکہ لفظ ”انقلاب“ کو بھی خون خرابہ قرار دے دیا گیا۔ ان سرمایہ داری کے دلال پروفیسروں اور دانشوروں کے نزدیک ایک ایسا دور جب پوری دنیا میں لوگ غربت، بھوک، افلاس، بیروزگاری، لاعلاجی اور مسلسل جنگوں میں مر رہے ہوتے ہیں، کو امن کا دور کہا جاتا ہے مگر محنت کشوں کے انقلاب کو خون ریزی بتایا جاتا ہے۔
کارل مارکس انقلاب کو تاریخ کا انجن کہتا ہے جو کہ انسانی تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے۔ انسانی تاریخ میں کئی انقلابات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہاں جس انقلاب کی ہم بات کر رہے ہیں وہ یقیناً پہلے انقلابات کی نسبت کئی پہلوؤں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ماضی کے انقلابات طبقاتی سماج کا خاتمہ نہیں کر سکتے تھے بلکہ طبقاتی سماج کو ہی آگے کی جانب لے جاتے رہے اور ان سب میں سابقہ اقلیتی حکمران طبقے کی جگہ ایک نیا اقلیتی حکمران طبقہ لیتا رہا لیکن پیرس کمیون کے مختصر تجربے (سوا دو ماہ تک کے عرصے تک پیرس شہر پر محنت کشوں نے قبضہ کئے رکھا) کے بعد انقلاب روس وہ عظیم واقعہ ہے جس میں اکثریتی طبقہ، محنت کش، پہلی دفعہ حکمران بنا۔ روسی محنت کشوں نے بالشویک پارٹی کی قیادت میں پہلی مزدور ریاست کی بنیاد رکھی اور سوشلزم کے قیام کی جدوجہد شروع کی۔ جس کا مقصد ذرائع پیدوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے انسانی وسائل کو چند لوگوں کے قبضے سے آزاد کر کے اکثریت کے استعمال میں لانا تھا۔ یوں ایک وحشی سماج سے انسانیت کو چھٹکارا دلا کر حقیقی معنوں میں انسانی سماج کا قیام عمل میں لایا گیا۔
انقلاب سے پہلے روس دنیا کے پسماندہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک میں سے ایک تھا۔ جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ ابھی تک جاگیرداری میں پس رہا تھا تو دوسری طرف سامراجیت کے پھیلتے عزائم، محنت کے استحصال اور وسائل کی لوٹ مار کے لیے جدید صنعتکاری بھی ہو رہی تھی اور شہروں کی حد تک جدید سرمایہ داری بھی موجود تھی۔ روسی سماج ہر شعبے میں ترقی یافتہ ممالک سے کہیں پیچھے تھا جہاں زار خاندان کی شکل میں بادشاہت موجود تھی۔ روسی سماج اپنے اندر کئی تضادات کا شکار تھا۔ ذرائع پیدوار ترقی کر چکے تھے جبکہ پیدواری رشتوں کی جکڑ بندیاں وہی تھیں جن کو توڑے بغیر سماج کا آگے بڑھنا مشکل تھا۔ روسی عوام اب اس ریاست سے تنگ آ چکی تھی جہاں عام انسان کی زندگی بد سے بدتر ہو چکی تھی۔ ایسے دور میں پھر بغاوت لازم تھی اور اکتوبر 1917ء میں روسی محنت کشوں نے حکمران طبقے کی زنجیروں کو توڑ دیا۔
آخر روس میں کیا ہوا اور کیوں ہوا اور کیا وہ کسی مہم جوئی کا نتیجہ تھا؟ انقلاب روس کا عظیم قائد لیون ٹراٹسکی اپنی کتاب ’انقلاب روس کی تاریخ‘ میں انقلاب کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ”انقلابات کی سب سے ناقابلِ تردید خصوصیت تاریخی واقعات میں عوام کی براہ راست مداخلت ہے۔ عام حالات میں ریاست خواہ وہ بادشاہت ہو یا جمہوریت خود کو لوگوں سے بلند رکھتی ہے اور تاریخ اس کام کے ماہرین یعنی بادشاہ، وزیر، بیوروکریٹس، پارلیمنٹیرین، صحافی وغیرہ بناتے ہیں۔ لیکن ان اہم لمحات میں جب پرانا نظام عوام کے لیے مزید قابل برداشت نہیں رہتا تو وہ سیاسی میدان کی باہر کی رکاوٹوں کو توڑ دیتے ہیں، اپنے روایتی نمائندوں کو ایک طرف جھاڑ دیتے ہیں اور اپنی مداخلت سے ایک نئی حکومت کے لیے ابتدائی بنیاد بناتے ہیں۔“
انقلاب کے بعد تمام ذرائع پیدوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے انہیں مزدور ریاست کے کنٹرول میں لے لیا گیا، یعنی دوسرے الفاظ میں محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں۔ زمین مزارعوں، زرعی پرولتاریہ اور نیم زرعی پرولتاریہ میں تقسیم کر دی گئی۔ انسانی محنت کے استحصال کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بیروزگاری اور غربت جو کہ ایک طبقاتی سماج کا خاصہ ہوتا ہے، انقلاب کے بعد مکمل ختم کر دی گئیں۔ تمام شہریوں کو روزگار دینا ریاست کی اولین ذمہ داری تھی۔
صنفی جبر اور تقسیم کا خاتمہ کیا گیا اور انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ عورت کو گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد کیا گیا اور مساوی اُجرت کے قوانین بنائے گئے۔ عورت کو جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی بنیاد پر برابر حقوق دئیے گئے جبکہ 1917ء سے پہلے عورتیں زار اور چرچ کے انتہائی جبر تلے دبی ہوئی تھیں۔ ان پر تعلیم کیلئے پابندیاں تھیں اور عورت کو مارنا بھی جائز تھا، سوشلزم نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ لینن کے الفاظ میں: ”لفظی معنوں میں، ہم نے ان حقیر قوانین کی ایک اینٹ بھی نہیں چھوڑی جس نے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کمتری کی حالت میں رکھا ہوا تھا۔“ اسی طرح قومی جبر کا بھی مکمل خاتمہ ہوا اور تمام مظلوم قومیتوں کو حق خود ارادیت ملا۔
1917ء میں روس ایک پسماندہ، نیم جاگیردارانہ، بنیادی طور پر ناخواندہ ملک تھا جبکہ سوویت یونین مختصر عرصے میں ایک جدید، ترقی یافتہ معیشت بن گیا جس میں دنیا کے ایک چوتھائی سائنسدان تھے۔ صحت اور تعلیمی نظام مغرب میں پائی جانے والی کسی بھی چیز کے برابر یا برتر تھا۔ پہلا خلائی سیٹلائٹ اور پہلے انسان کو خلا میں بھیجا گیا۔ 1917ء میں شرحِ خواندگی مردوں میں 37 فیصد جبکہ خواتین میں 12.5 فیصد تھی لیکن سوویت یونین نے دو دہائیوں میں ہی سو فیصد شرح خواندگی حاصل کر لی۔
ہر شہری کی تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی تھی۔ علاج کی ذمہ داری بھی ریاست کی تھی۔ اب چند سکے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اذیت کی موت نہ مرتا تھا۔ زچگی میں بچوں کی اموات دو تین سالوں میں 90 فیصد کم ہو گئیں۔ اوسط عمر میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا جس میں عورتوں کی اوسط عمر میں 30 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ بے گھری کا خاتمہ کیا گیا اور ماحول دوست تعمیرات کی گئیں۔ ہزاروں لوگ جو سردی میں ٹھٹھر کر مر جاتے تھے، اب ان کی زندگی کی ریاست ذمہ دار تھی۔ انسانوں کی اکثریت کو پہلی دفعہ سکھ کا سانس ملا جس میں وہ بنیادی ضروریات سے آزاد ہو کر ایک آزاد حیثیت میں زندہ رہنے لگے۔
پہلی دفعہ انسانی تاریخ میں حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں آیا جس میں ایک باورچی وزیر اعظم بن سکتا ہے اور ایک وزیراعظم باورچی۔ کیونکہ اب کوئی سرمایہ کی بنیاد پر اوپر نہیں آ سکتا تھا بلکہ اہلیت اور انتخاب کی بنیاد پر آگے آتا تھا۔ اب سماج کو سوویتیں (روسی زبان کا لفظ جس کا معنی پنچائیت یا کمیٹی ہے) چلاتی تھیں جس میں کسی کو بھی منتخب کیا جا سکتا تھا اور اپنے فرائض پورے نہ کرنے کی صورت انہیں کسی بھی وقت عہدے سے واپس ہٹایا جا سکتا تھا۔ بلاشبہ انقلاب روس کی تاریخ میں ہمارے لیے کافی اسباق ہیں جن سے سیکھتے ہوئے ہمیں آج بھی ایک ایسی انقلابی قیادت تعمیر کرنا ہوگی جو محنت کش عوام کو ایک سوشلسٹ متبادل دیتے ہوئے مزدور ریاست کی بنیاد رکھے اور انسان کی تمام تر اذیتوں کا خاتمہ کرے۔