اسلام آباد: انقلابِ روس کی صد سالہ تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: ہمراز سروانی|

گذشتہ ہفتے بروز بدھ مورخہ 15 نومبر 2017ء کو پروگریسو یوتھ الائنس نے قاعد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں انقلابِ روس کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا جس کا موضوع ’مارکسی نظریات کی معاصر مطابقت‘تھا۔ تقریب کا انعقاد جامعہ میں بسٹرو شیکسپیئر لاؤنج کی بیٹھک میں ہوا جس کے منتظم ڈاکٹر شیراز نے سوشلسٹ نظریات سے وابستگی رکھنے کی وجہ سے بصد خوشی و اطمینان اپنی جگہ اس سرگرمی کے لیے پیش کر دی۔ شدید بارش اور سرد موسم کے باوجود قاعد اعظم یونیورسٹی، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، بحریہ یونیورسٹی اور اسلام آباد کے دیگر تعلیمی اداروں سے لگ بھگ 50 کے قریب طلبہ نے تقریب میں شرکت کی اور بحث میں حصہ لیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس سے ماہ بلوص اسد نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے۔ 

تقریب کے پہلے مقرر کامریڈ آدم پال نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے عظیم انقلابِ روس کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح عالمی بورژوا میڈیا نے ہمیشہ اس انقلاب کی عظمت پر پردہ ڈالا اور لوگوں کو اس کے ثمرات سے ناآشنا رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والا نصاب بھی اس غلیظ پروپیگنڈا کا حصہ ہے جو ایک ایسا تاثر پیدا کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، یہاں تک کہ بیشتر جگہوں سے لفظ ’انقلاب‘ تک حذف کیا جا چکا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے نوم چومسکی سے لے کر فرانسس فوکویامہ تک جیسے نام نہاد دانشوروں کا ذکر کیا جو مکمل یا جزوی جھوٹ کے ذریعے کسی نا کسی طرح عالمی سامراجی مفادات کی دلالی کرتے رہے اور ہماری دانش گاہیں ان کو انسانی تہذیب کے بہترین دماغ گردانتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا نصاب سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کا تقابل کر کے صرف اور صرف سٹالن کی انقلاب سے غداریوں کی آڑ میں انقلابِ روس کے خلاف عالمی پیمانے پر کیے جانے والے پروپیگنڈا کی روشنی میں ایک ایسا جھوٹ کا متنجن نوجوان ذہنوں میں اتارتا ہے کہ ہمارے نوجوان یا تو سوشلزم کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے اور اگر سنتے بھی ہیں تو اسے ایک خیالی یا یوٹوپین نظریے کے طور پر جانتے ہیں۔ انہوں نے موجودہ عالمی تناظر اور پاکستان کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا بھر میں اٹھنے والی محنت کشوں اور طلبہ تحریکوں اور بائیں بازو کی سیاست کے بڑھتے ہوئے اثر کا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ بحران اور محنت کش طبقے کے تمام تر دکھوں کا واحد حل مارکسی نظریات ہی فراہم کرتے ہیں اور ایک سوشلسٹ انقلاب ہی انسانیت کو اس بربریت سے نجات دلا سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے بالشویک پارٹی کی طرز کی ایک عالمی انقلابی پارٹی کی تیز ترین تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس کے بعد دیگر ساتھیوں نے بھی بحث میں حصہ لیا جس میں پروگریسو یوتھ الائنس سے تعلق رکھنے والے عمر ریاض، عادل راؤ اور رحیم عباس نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان میں عمومی رجعتی سیاست کی بیگانگی اور خصی پن کا ذکر کیا اور بتایا کہ کیوں اس وقت محنت کش طبقے کی اصلی سیاست کی نہایت ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں ایک طرف پورے زور سے میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے وہیں ساتھ ساتھ مسلسل مطالعے کے ذریعے نظریاتی پختگی بھی نہایت لازمی ہے۔ رحیم عباس نے اس ضمن میں کہا کہ مارکس کو پڑھنا تو ضروری ہے ہی مگر اس کے ساتھ ایڈم سمتھ اور اس قماش کے دیگر لکھاریوں کے نظریات سے آگاہی بھی تحریک کے کارکنوں کیلئے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ انہوں فیڈل کاسٹرو کے اس بیان کو یاد کیا جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ جو کہتے ہیں کہ سوشلزم ناکام ہو چکا ہے، ان سے پوچھو کہ سرمایہ داری کہاں کامیاب ہوئی ہے۔ 

اس کے بعد تقریب کے شرکا کی جانب سے بہت اہم موضوعات پر سوالات کیے گئے جن میں مارکسزم اور لینن ازم کا آپس میں تعلق، قومی سوال اور طبقاتی جدوجہد اور موجودہ دور میں عالمی کارپوریٹ پر کچھ ایلیٹسٹ رجعتی مذہبی رجحانات کا تسلط اور ان سے وابستہ سازشی تھیوریوں کی حقیقت، چیدہ چیدہ ہیں۔ آدم پال نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ان سوالات کے جوابات دیے اور کہا کہ کس طرح عالمی مارکسی رجحان مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات کو ایک ان ٹوٹ دھارا سمجھتی ہے اور انہی کی روشنی میں پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ آخر میں تقریب کے شرکا نے یک آواز ہو کر انٹرنیشنل گایا۔

اس کے بعد بھی شرکا کے ساتھ کافی دیر تک غیر رسمی گفتگو چلتی رہی اور اسی دوران قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے طلبہ نے رباب کی دھنوں پر مختلف گیت پیش کیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.