|تحریر: نفیسہ اعجاز|
کرونا وبا کے پیش نظر مارچ میں لگایا جانے والا لاک ڈاؤن تقریباً چھ ماہ کے عرصے میں بتدریج ختم کیا گیا۔ اس سارے عرصے میں پہلے سے جاری معاشی بحران نے زیادہ شدت سے سماج کی ہر پرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی اور غربت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ عوامی شعور میں ایک معیاری تبدیلی بھی آئی ہے اور طلبہ اور محنت کش اپنے طور پر منظم ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
بازار، شادی ہال، کاروباری مراکز وغیرہ کھولنے کے بعد ستمبر میں تعلیمی ادارے بھی جزوی طور پر کھول دیئے گئے ہیں اور باقاعدہ کلاسوں کے ساتھ ساتھ آن لائن کلاسوں کے سلسلے کو بھی جاری رکھا گیا ہے اور زیادہ تر یونیورسٹیوں میں پہلے اور آخری سمیسٹر کے طلبہ کے علاوہ باقی سب کو آن لائن کلاسوں کے جھنجھٹ میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں سیکھنے کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ انجینئرنگ اور دیگر ایسے شعبے جن میں عملی کام بنیادی اہمیت رکھتا ہے ان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو بھی صرف تھیوری پڑھا کر کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں جب سب کچھ بند تھا فیسیں لینے کا سلسلہ جاری رہا اور اب بھی جاری ہے اور جامعات کھلنے پر انتظامیہ نے طلبہ کو پچھلے آن لائن سمیسٹر کی اضافی فیسیں واپس کرنے کی بجائے فیسوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں جو طلبہ ابھی بھی گھر بیٹھے آن لائن کلاسیں لے رہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کو آن لائن کلاسوں کے لیے مفت سہولیات مہیا کی جاتیں مگر تعلیمی ادارے اور ریاست پہلے کی طرح اب بھی کچھ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور طلبہ پوری فیس دینے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کا اضافی خرچہ بھی برداشت کر رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران میں بھی جب آن لائن کلاسیں شروع کی گئیں تب بھی طلبہ کو تعلیمی اداروں اور حکومت کی جانب سے کوئی سہولت نہیں دی گئی اور اکثر طلبہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسوں میں شامل نہیں ہو سکے۔ ان سب اقدامات سے حکومت اور تعلیمی اداروں کی طلبہ دشمنی صاف واضح ہوتی ہے۔
کتنے ہی ایسے طلبہ ہیں جو کوئی پارٹ ٹائم کام کر کے یا کسی کو ٹیوشن پڑھا کر اپنے یونیورسٹی کے خرچے پورے کرتے تھے مگر لاک ڈاؤن اور مہنگائی کے بڑھتے جال نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ انہیں اپنی ہی پڑھائی کے سلسلے کو ترک کرنا پڑا رہا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت تمام طلبہ تک مفت تعلیم اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے روزگار کی ضمانت بھی دیتی اور روزگار نہ ہونے کی صورت میں بیروزگاری الاؤنس جاری کرتی مگر ہمیشہ کی طرح حکومت کا سارا دھیان تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکج دینے اور عام مزدوروں کی زندگی مزید مشکل کرنے کی طرف ہی لگا ہوا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسوں کی وجہ سے نہ صرف طلبہ پریشان نظر آئے بلکہ اکثر اساتذہ بھی مناسب ٹریننگ اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے۔ خاص طور پر خواتین اساتذہ جن کو گھر اور بچوں کی تعلیم کے ساتھ آن لائن کلاسوں کے سلسلے کو بھی چلانا پڑا۔ اس کے ساتھ تمام تعلیمی اداروں نے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر بڑی تعداد میں اساتذہ کو نوکریوں سے نکال دیا ہے اور پیچھے رہ جانے والے اساتذہ کی تنخواہوں میں آن لائن کلاسوں کو جواز بنا کر ابھی تک بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ یعنی ایک طرف قوم کے معمار اپنے خاندان سمیت بیروزگاری اور بھوک برداشت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور دوسری طرف برسرِ روزگار افراد روزگار کے ہوتے ہوئے بھی تنگدستی اور بدحالی کا شکار ہیں۔ تبدیلی سرکار نے تعلیم کا بجٹ بڑھانا تو درکنار جو پہلے سے موجود تھا اس پہ بھی کاری حملے کیے ہیں۔
حال ہی میں یونیورسٹیوں میں رونما ہونے والے کرونا کے مثبت کیسز کو کسی حد تک چھپانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے جس کی ممکنہ وجہ فیسوں کی وصولی تک اداروں کو سیل ہونے سے بچانا ہے۔ کالج کے طلبہ کو خاموشی سے دو ہفتے کی چھٹی دے کر ساتھ ہی کسی کو کچھ نہ بتانے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ فیسوں کی وصولی ہو جانے کے بعد دوبارہ کرونا کے بڑھتے کیسز کو بنیاد بنا کر واپس لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے کیونکہ موجودہ صورتِ حال کی وجہ سے طلبہ میں بڑھتا غم و غصہ یقینا سماج کی بنیادیں ہلا دینے کی قوت رکھتا ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں ریاستی اداروں، حکومت اور اپوزیشن کی کسی ایک سیاسی پارٹی کے پاس کوئی پروگرام موجود نہیں ہے کہ طلبہ کے مسائل کو کیسے حل کیا جائے گا یا کس طرح سے پڑھائی کے لئے ایک سازگار ماحول تخلیق کیا جائے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طرف تعلیمی اداروں کو کھولنے کا مقصد لوٹ مار کا بازار مسلسل جاری رکھنا ہی ہے لیکن دوسری طرف اداروں کی جزوی طور پر بندش کی ایک بہت بڑی وجہ پنپتی ہوئی طلبہ تحریک سے ریاست کا بے پناہ خوف ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بھی پورے ملک میں طلبہ کی جانب سے آن لائن کلاسوں اور فیسوں کے حوالے سے احتجاج ہوتے رہے ہیں لیکن تعلیمی اداروں کے کھلنے کے بعد ملک کے طول و عرض میں شائد ہی کوئی ایسی یونیورسٹی یا کالج بچا ہو جہاں طلبہ نے فیسوں میں اضافے اور آن لائن کلاسز کے خلاف چھوٹا یا بڑا احتجاج نہ کیا ہو۔ گو کہ یہ احتجاج بہت زیادہ منظم نہیں تھے اور طلبہ کے پاس کوئی ٹھوس متبادل پروگرام بھی موجود نہیں تھا لیکن ہر جگہ ان احتجاجوں کا رونما ہونا مستقبل میں پھٹنے والے آتش فشاں کی درست نشاندہی کر رہا ہے۔ حال ہی میں اساتذہ کی تنظیموں نے بھی تنخواہوں میں اضافے، نجکاری کے خلاف، پینشنوں کے خاتمے کو روکنے اور دیگر مسائل پر بڑے احتجاج منظم کئے ہیں اور اگر ایسے میں اساتذہ اور طلبہ منظم طور پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر ریاستی سرپرستی میں جبر اور لوٹ مار کے خلاف کسی تحریک میں اترتے ہیں تو حکومت کیا شائد یہ پوری ریاست ہی اس طوفانی ریلے کے آگے تنکوں کی مانند بہہ جائے۔
آنے والے عرصے میں طلبہ اور محنت کش واضح طور پر بڑے احتجاجوں اور تحریکوں کی طرف بڑھیں گے۔ پچھلے دو ہفتوں میں ہزاروں سرکاری ملازمین کا اسلام آباد کی طرف مارچ اور احتجاجی دھرنا پورے ملک میں
مزاحمتی سیاست کی ایک نئی اٹھان کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ایسے وقت میں طلبہ کے لیے بھی ایک سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت شدت اختیار کر رہی ہے، ایک ایسا پلیٹ فارم جس کا مقصد ماضی کی طرح ریاستی کٹھ پتلی بننے کی بجائے طلبہ کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ جدوجہد ہو۔ اگر طلبہ اس مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور اساتذہ کے ساتھ ایک منظم قوت بن کر ابھرتے ہیں تو پھر ایک ٹھوس انقلابی پروگرام کی قیادت میں ریاست کے ان تعلیم دشمن اقدامات کو شکست فاش دی جا سکتی ہے۔