سماجی ترقی میں نوجوانوں کا کردار

|تحریر:شبیر احمد بزدار|

ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔اگر اس بات کو ماضی میں مختلف ممالک کی ترقی اور مختلف ممالک کے اندر برپا ہونے والے انقلابات میں نوجوانوں کے کردار کے پیش منظر میں دیکھا جائے تو ہم آج پاکستان میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کے سماجی ترقی میں کردار کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں ۔انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں جہاں ہمیں علامہ اقبال، قائداعظم ،سرسید احمد خان کا نام دیکھنے کو ملتا ہے وہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں نوجوانوں نے بھی بہت اہم کردار اد ا کیا تھا اور جدوجہدِ آزادی کی ہر تحریک میں ہمیں نوجوان پیش پیش نظر آتے ہیں ۔آزادی کی جدوجہد میں ہمیں بھگت سنگھ ، سکھ دیو، راج گرو اور اشفاق احمد کا نام بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔

بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو

کسی بھی سماج میں نوجوانوں کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ پاکستان میں صرف یہ نہیں کہ ناخواندہ افراد کو مثبت سرگرمیاں اور روزگار میسر نہیں بلکہ یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت بھی روزگار اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ۔اگر ان نوجوانوں کومثبت سرگرمیاں اور روزگار فراہم کیا جائے تو یہی نوجوان اس ملک کی ترقی، معیشت کی مضبوطی اور مسائل کی کمی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں مگر ہمیں اس مسئلے کی طرف ریاست اور اس کے اہم عہدوں پر براجمان لوگوں کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ، ان کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ان کو ریاست کا قیمتی اثاثہ بنانے کے ، ہمیں نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا رجحان نظر آتا ہے ۔ تعلیمی اداروں سے لے کر زندگی کے ہر شعبے تک ہمیں نوجوانوں پر بے جا تنقید نظر آتی ہے اور نوجوانوں کو نااہل اور کام چور ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں اور انہیں مسلسل یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ خود کو درپیش مسائل کے ذمہ دار وہ خود ہیں ۔

اسی طرح نوجوانوں کو یہ احساس بھی دلایا جاتا ہے کہ بلاشبہ ان کے پاس ڈگریاں تو موجود ہیں مگر ان میں ڈگریوں سے متعلقہ صلاحیتیں ناپید ہیں ۔اگر اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو اس ریاست اور اس کے تعلیمی نظام کے کرتا دھرتوں سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ معیاری تعلیم کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے ؟ کیا غیر معیاری تعلیمی نظام کے ذمہ دار بھی نوجوان خود ہیں ؟ کیا تعلیمی اداروں کو ڈگریاں بانٹنے کی مشینیں بنانے اور نوجوانوں کو رٹے باز طوطے اور نمبر حاصل کرنے کی مشینیں بنانے کے ذمہ دار بھی نوجوان خود ہیں ؟ کیا تعلیم کے کاروبار اور چپے چپے پر کھمبیوں کی طرح اگی ہوئی اکیڈمیوں،نجی تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سنٹرز کے اور وہاں پر کی جانے والی لوٹ مار کے ذمہ دار بھی نوجوان خود ہیں ؟ کیا تعلیم کے حق سے محروم غریب خاندانوں کے کروڑوں نوجوان بھی تعلیم سے دور ی کے خود ذمہ دار ہیں ؟ یا ظلم اور لوٹ مار پر مبنی اس نظام نے نوجوانوں سے یہ بنیادی حقوق بھی چھین لیے ہیں ؟

ہم جانتے ہیں کہ یہ الزامات اور اس طرح کے ہتھکنڈے اصل ذمہ داروں سے توجہ ہٹوانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ نوجوان اس ریاست اور اس کے نظام کے متعلق سوالات نہ اٹھا سکیں بلکہ خود کو ہی مسائل کی وجہ سمجھتے رہیں ۔بے روزگاری ، ہتک آمیز رویے اور اس طرح کے دیگر مسائل نوجوانوں کو انتہا پسند رویوں کی طرف دھکیلتے ہیں اور نوجوانوں میں جرائم ، منشیات کے استعمال اور خودکشیوں کے رجحان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔

ان تمام مسائل کے حل کے لیے اہلِ اقتدار کی توجہ درکار ہے مگر ریاست کا کوئی ذمہ دار ان مسائل کی طرف توجہ دینے پر تیار نہیں ۔جہاں ایک طرف نوجوانوں سے بنیادی انسانی حقوق چھین لیے گئے ہیں وہیں پر نوجوانوں سے بنیادی جمہوری حقوق بھی چھین لیے گئے ہیں۔مسلسل تین دہائیوں سے طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے اور تعلیمی اداروں کو جیل خانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ یونین تو دور تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو سوسائٹیز بنانے سے بھی روکنے کے لیے ہزاروں ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز ہوا کرتی تھیں جن کا مقصد طلبہ کے حقوق اور مسائل کی بات کرنا اور ان کو حل کرانا ہوتا تھا ۔ ماضی میں موجود یونین طلبہ کا ایک جمہوری ادارہ ہوا کرتا تھا جس کے باقاعدہ انتخابات ہوا کرتے تھے اور جن کا کردار موجودہ غنڈہ گرد تنظیموں سے بالکل مختلف ہوتا تھا ۔ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے مسائل اور غنڈہ گرد تنظیموں کے رجحان کی وجہ بھی طلبہ سے ان کے جمہوری حقوق یعنی طلبہ یونین کا چھین لینا ہے ۔

اقتدار میں موجود یہ حکمران طبقہ بھی خود کو نوجوانوں کا نمائندہ کہلاتا تھا اور یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ نوجوانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد کی حمایت بھی اس پارٹی کے ساتھ موجود تھی مگر یہ حکمران پارٹی اور اس کا لیڈر عمران خان بھی نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور بہت جلد اس پارٹی کو بھی سابقہ پارٹیوں کی طرح نوجوانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ نوجوانوں کا بدلتا سیاسی شعور اس بات کی غمازی ہے کہ اس ملک کے نوجوان بہت جلد اپنے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کے میدان میں داخل ہوں گے ۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.