|تحریر: وطن دوست سٹوڈنٹس فیڈریشن|
عظیم مارکسی استاد لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ، نوجوان درخت کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں جو طوفان آنے پر سب سے پہلے تحرک میں آتے!
درج بالا جملہ پاکستانی صورت حال کی درست عکاسی کرتا ہے۔ جہاں حکمران طبقہ محنت کش عوام سے سانس لینے کا حق چھیننے کی تگ و دو میں ہے اور ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرتا جا رہا ہے جنہیں ادا کرنا غریب آدمی کیلئے ناممکن ہے۔ اس معاشی بحران سے جان چھڑانے کے لیے جہاں ٹیکسوں کا عذاب ہے، وہیں نوجوانوں سے تعلیم کا بنیادی حق بھی چھیننے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس طوفان سے نوجوانوں کا تحرک میں آنا کرشمہ نہیں پر حقیقت ہے۔ جس کے اثرات مختلف تعلیمی اداروں میں عیاں ہیں۔
گزشتہ کچھ دن بالکل اسی طرح شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی نوابشاھ میں طلبہ کی بڑی تعداد سراپا احتجاج دکھائی دی جنہیں منظم کرنے میں یونائیٹڈ سٹوڈنس فیڈریشن کے کامریڈ عاقب علی نقوی اور انکے ساتھیوں کا کلیدی کردار تھا۔ یہ احتجاج یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے مسلط کی گئی ٹرم بیک، دوسرے شعبوں میں جانے پر بندش جیسے آمرانہ قوانین اور ہاسٹل سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی کے خلاف تھا۔ طلبہ احتجاج میں جذبوں سے بھرے نظر آرہے تھے۔ ان جذبات کے سبب انتظامیہ کو جھکنا پڑا اور جلد از جلد مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اس جیت پر وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن، ان طلبہ اور یونائیٹڈ سٹوڈنس فیڈریشن کو خراج تحسین پیش کر تی ہے اور ہر عملی و مزاحمتی قدم پر ساتھ چلنے کا یقین دلاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کے طلبہ کیساتھ، سندھ کے طلبہ کیساتھ اور پھر ملک گیر سطح پر طلبہ کیساتھ جڑت کی اپیل کرتے ہوئے ایک منظم ملک گیر جدوجہد کی اپیل کرتی ہے۔
طلبہ اتحاد زندہ باد!
طلبہ جدوجہد زندہ باد!
حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے!