|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
16 دسمبر کو جمعرات کے دن پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسانی کا افسوس ناک واقع پیش آیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ مسلم ٹاؤن میں پیش آیا جب جینڈر سٹڈیز ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم نے ایک اور لڑکے سمیت جینڈر سٹڈیز ڈپارٹمنٹ کی ہی ایک طالبہ کو اغوا کیا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ مگر لڑکی کے شور مچانے پر ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس واقعہ کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
جمعیت جیسے غنڈہ گردوں کی طرف سے طلبہ کو ہراساں کرنے کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پہلے بھی جمعیت کے غنڈے یونیورسٹی انتظامیہ کی ایما پر متعدد بار طلباء و طالبات کو ہراساں کرتے آئیں ہیں۔ ایک طرف تو جمعیت کے غنڈے مذہب کو بنیاد بنا کر طلباء و طالبات کو اکٹھے بیٹھنے تک بھی نہیں دیتے کہ یہ مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے، اور مختلف ڈپارٹمنٹس جیسے ہیلے کالج میں اسی بات کو بنیاد بنا کر متعدد بار طلبہ کو ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مارا بھی گیا ہے، اور دوسری طرف جمعیت کے یہ بدمعاش دن دیہاڑے ایک لڑکی کو ا غوا کرتے ہیں اور جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمعیت صرف اور صرف مذہب کا لبادہ اوڑھ کر یونیورسٹی میں انتطامیہ کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتی ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں جہاں ایک طرف بڑی بڑی بین الاقوامی کانفرنسیں کروائی جاتی ہیں تو وہیں دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ کی ایما پر کام کرنے والے جمعیت کے غنڈوں کی وجہ سے یونیورسٹی کے بیشتر ڈپارٹمنٹس میں مدرسوں جیسا ماحول ہے۔ جنسی امتیاز اپنے عروج پر ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں یونیورسٹی کی فیسوں میں بے بہا اضافہ کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ہاسٹلز کی فراہمی میں بھی شدید کمی کی گئی ہے۔ ان سارے مسائل پر طلبہ کے اندر سوالات اور بے چینی موجود ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ یہ نہیں چاہتی کے طلبہ ان مسائل کے گرد اکٹھے ہوں اور سیاست میں حصہ لیں۔ اسی لیے جمعیت جیسی غندڈہ گرد تنظیم کی گھٹیا اور غلیظ ڈنڈے لاٹھیوں کی سیاست کو سیاست کی حتمی شکل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ آئے روز جمعیت کے غنڈے ڈپارٹمنٹس، ہاسٹلزاور کینٹینوں پر طلبہ پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی پولیس ان کو گرفتار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں طلبہ کو درپیش مسائل جیسے فیسوں میں اضافہ اور ہاسٹلز کی کمی کے خلاف سراپا احتجاج ہونے والوں کو بھی مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمعیت یونیورسٹی انتظامیہ کی ایما پر ہی کام کرتی ہے اور طلبہ کے مسائل کا حل ان کا مقصد نہیں ہے، اور مذہب کو بنیاد بنا کر اس غنڈہ گردی میں یونیورسٹی انتظامیہ کا مکمل ہاتھ ہے۔
تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آئے روز پورے ملک میں تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ نہ صرف فیلو سٹوڈنٹس بلکہ اساتذہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کے لوگوں کی طرف سے بھی طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں ہراسانی اورطلبہ کے دیگر مسائل کے حل کیلئے طلبہ کے پاس کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر بنائی گئی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بالکل بھی فعال نہیں ہیں اور ان کمیٹیوں میں زیادہ تر وہی لوگ موجود ہیں جو خود طلبہ کو ہراساں کرتے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کی ایک تنظیم ہے جو پورے پاکستان میں ہراسمنٹ، فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے خلاف طلبہ کو منظم کر رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم ہونا ہوگا۔ ہراسمنٹ جیسے مسائل کے حل کیلئے ہر یونیورسٹی میں تمام ڈپارٹمنٹس کے طلبہ پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانا ہوں گی جن میں طلبہ خود شامل ہوں۔ اگر کوئی ہراسمنٹ کا واقع ہوتا ہے تو طلبہ اس کے خلاف سراپا احتجاج ہوں اور مسئلے کے حل تک پیچھے نہ ہٹیں۔ اگر طلبہ خود منظم ہوں تو جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیم سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے اور سب مسائل کے خلاف سیاسی لڑائی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ ہراسانی اور دیگر مسائل کو سیاسی طور پر سمجھتے ہوئے ان کے خلاف منظم ہونا ہوگا اور یونیورسٹی انتظامیہ کی طلبہ دشمن پالیسیوں اور جمعیت کی غنڈہ گردی کا بھرپور جواب دینا ہوگا۔