کوئٹہ: بیروزگاری، جنسی ہراسانی، مہنگی تعلیم، قومی جبر اور سرمایہ داری کے خلاف صوبائی ”ہلہ بول یوتھ کنونشن“ کا انعقاد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کی جانب سے 25 اکتوبر کو ظریف شہید آڈیٹوریم گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ میں صوبائی کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں سینکڑوں طلبہ اور محنت کشوں نے شرکت کی اور نئی صوبائی کابینہ کا انتخاب کیا گیا۔

کنونشن کی تیاریوں کے سلسلے میں پروگریسیو یوتھ الائنس بلوچستان کے ممبران نے پورے بلوچستان بلخصوص کوئٹہ کے تمام تعلیمی اداروں میں اپنے انقلابی پروگرام کے لیفلیٹ کے ہمراہ بھرپور کیمپین کی۔ کوئٹہ شہر میں سردار بہادر خان وومین یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی، اگریکلچر کالج، موسیٰ کالج، پولی ٹکنیک کالج، بروری روڈ گرلز کالج، بیوٹمز یونیورسٹی سمیت مختلف اکیڈمیوں اور لائبریریز کے طلبہ اور محنت کشوں کو کنونشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

بلوچستان کا یوتھ کنونشن ایک ایسے وقت میں منعقد کیا گیا جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران کا شکار ہے۔ حکمران طبقہ عالمی سطح پر ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکا ہے جہاں وہ اپنے نظام کو بچانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہورہا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نوجوان اور محنت کشوں کا معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں حالات اس سے بھی بدتر شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس وقت نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ نوجوانوں اور محنت کشوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے بجائے ان سے ان کا حق چھین رہا ہے۔ اس تمام بربادی کو دیکھتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس نے اپنا کنونشن بے روزگاری، جنسی ہراسانی، مہنگی تعلیم، طلبہ یونین پر عائد پابندی، جبری گمشدگیوں، قومی جبر اور سرمایہ داری کے خاتمے جیسے بنیادی مسائل کے گرد کیا۔

کنونشن کا آغاز صبح 11 بجے ہوا۔ شروع سے اختتام تک پورا آڈیٹوریم انقلابی نعروں سے گونجتا رہا، لہو گرماتے نعرے اور طلبہ کی دلچسپی قابل دید تھی۔ کنونشن میں سٹیج سیکریٹری کے فرائض پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے سابقہ آرگنائزر فیصل خان نے سرانجام دئیے انہوں نے آغاز میں ہال میں موجود طلبہ اور محنت کشوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کا مختصر تعارف کروایا اور طلبہ سیاست میں انقلابی نظریات کی اہمیت پربات کی۔

اس کے بعد پہلی تقریر کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس کی رہنما سیمہ خان کو دعوت دی گئی جنہوں نے طلبہ مسائل پر عمومی طور پر اور جنسی ہراسانی پر خصوصی طور پر بات رکھی۔ سیمہ خان کا کہنا تھا کہ اس طبقاتی سماج میں خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں دوہرے استحصال کا سامنا ہے۔ گھریلو تشدد، لا علاجی، غربت، بے بسی اور ہر سطح پر جنسی ہراسانی کو خواتین کی زندگیوں کا حصہ بنا دیا گیا ہے جنہیں پھر ملائیت اور قبائلی روایات کے بوجھ تلے تمام تر ظلم برداشت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وہ وقت گزر چکا ہے جب خواتین ہر ظلم کو خاموشی سے برداشت کرتی تھیں۔ اب خواتین نے جنسی ہراسانی کے خلاف علم بغاوت اٹھا لیا ہے اور مزید ظلم برداشت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس یہی علم بغاوت تھامے ہوئے ہے۔

اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے سابقہ یوتھ آرگنائزر غلام خلقی کو دعوت دی گئی جنہوں نے بلوچستان کے طلباء کو درپیش مسائل پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ژوب سے لے کر گوادر تک بلوچستان کے طلبہ انتہائی سخت حالات میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی، سردار بہادر خان یونیورسٹی، سٹی لاء کالج، بیوٹمز یونیورسٹی، اور دیگر یونیورسٹی سے آئے ہوئے طلبہ کو مفت تعلیم، معیاری ٹرانسپورٹ، ہاسٹلوں کی فراہمی، جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور جنسی ہراسانی کے خلاف منظم عملی جدوجہد کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بننے کی دعوت دی۔

تقریروں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے بعد سائنس کالج کے طالب علم مصور خان کو دعوت دی گئی جنہوں نے ان تمام نوجوانوں اور بچوں کی زندگیوں پربات کی، جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ورکشاپوں، فیکٹریوں، زرعی زمینوں اور سرمایہ داروں کے گھروں میں اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج ان نوجوانوں کو نہیں بھولنا چاہیے جن کی زندگیاں اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام نے برباد کر دی ہیں۔ مصور خان نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی اس جدو جہد میں ان تمام نوجوانوں کو شامل کرنا ہوگا جو اس نظام کے جبر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس سے سنگین خان نے مختصراً کوئٹہ میں موجود یونیورسٹیوں کی فیسوں میں 40 فیصد اضافے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ دشمن حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں خاص طور پر خواتین طلبہ کی پڑھائی میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے لئے تعلیم کے مواقع انتہائی محدود ہیں اور کہیں بھی لڑکیوں کے لئے کوئی یونیورسٹی موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبات مجبوراً کوئٹہ پڑھنے آتی ہیں، لیکن فیسوں میں اضافے سمیت ہاسٹلوں اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی وجہ سے طالبات کے مسائل شدت اختیار کر رہے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس ان مسائل کے گرد طلبہ کو منظم کر رہا ہے۔

کنونشن میں محنت کشوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل تھی اور محنت کشوں کی نمائندگی کرنے کے لئے آل پاکستان کلیریکل اینڈ ٹیکنیکل ایسوسی ایشن کے شمش کاکڑ کو دعوت دی گئی جنہوں نے محنت کشوں کی حالت زار پر بات کرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں پر سخت تنقید کی۔ شمس کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایک طرف محنت کش عوام بھوک، لاعلاجی، بے روزگاری، مہنگائی اور استحصال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ دوسری طرف حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ طبقاتی نظام کے خلاف تمام محنت کشوں طلبہ اور کسانوں کو منظم کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد محنت کشوں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کی رہنما جویریہ ملک کو دعوت دی گئی جنہوں نے کنونشن میں موجود طلبہ اور محنت کشوں کو اتحاد کا مظاہرہ کرنے پر سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ اور مزدوروں کے مسائل الگ نہیں بلکہ ایک ہیں۔ اس بڑھتی مہنگائی، جبری برطرفیوں، تنخواہوں میں کٹوتیوں سمیت فیسوں میں بے تحاشہ اضافے سے محنت کشوں کے گھرانے متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف سرمایہ داروں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں، مگر دوسری جانب غریب محنت کشوں کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے کے لئے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے۔ جویریہ نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور اس نظام میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ طلبہ مزدور اتحاد اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدو جہد کے ذریعے ہی محنت کشوں کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم، روزگار اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے اور سوشلسٹ نظام قائم کرتے ہوئے جبر و استحصال کی تمام بنیادوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

کنونشن میں ریلوے محنت کش یونین کے مزدوروں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ ریلوے محنت کش یونین کے جنرل سیکرٹری رؤف بابر نے کنونشن میں موجود طلبہ اور محنت کشوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 75 سالوں سے پاکستان کے حکمران طبقے نے محنت کشوں کو معیاری تعلیم سے دور رکھاہے۔ انہوں نے 1917ء میں ہونے والے انقلاب روس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نظریات کی مظبوطی ہمیں وہ طاقت دیتی ہے جس سے بڑی سے بڑی قوتوں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے محنت کش یونین پروگریسو یوتھ الائنس کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور طلبہ کی جدوجہد میں انکے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کا اختتام ‘انقلاب کے تین نشان، طلبہ مزدور اور کسان’ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کیا۔

کنونشن میں سندھ سے آئے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کشمورکے آرگنائزر اختر حسین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ڈسپلن کے نام پر طلبہ کو ٹارچر کیا جاتا ہے۔ جنسی ہراسانی کے خلاف بنائی گئی کمیٹیوں میں وہی افراد فیصلہ سازی کر رہے ہوتے ہیں جو خود اس جرم میں ملوث ہوتے ہیں۔ انہوں نے چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں پیش آنے والے طالبہ نمرتا کی خود کشی کے واقعے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ اس طالبہ نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ ان کا قتل کیا گیا تھا، جس میں یونیورسٹی انتظامیہ ملوث تھی۔ انہوں نے پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے اس مطالبے کی حمایت کی کہ تعلیمی اداروں میں طلبا اور طلبات سمیت محنت کشوں کی منتخب کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ ایسے واقعات کا بھرپور سدباب کیا جاسکے۔

کنونشن کی صدارتی تقریر کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر فضیل اصغر کو اسٹیج پر دعوت دی گئی جنہوں نے کامیاب صوبائی کنونشن منعقد کرنے پر پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ یہ کنوینشن نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لئے تاریخی ثابت ہوگا۔ فضیل نے کہا کہ آج جہاں سرمائے کی سیاست کو عام کیا جا رہا ہے اور طلبہ کو نظریاتی سیاست سے دور کیا جارہا ہے، ایسے وقت میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کامیاب کنونش نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ طلبہ حکمران طبقے کی رجعتی سیاست کو رد کرتے ہیں اور یونیورسٹیوں میں موجود غنڈہ گرد تنظیموں سے طلبہ نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اس سوچ کو بھی رد کرتے ہیں ہیں کہ سیاست کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جا ئے۔ بلکہ اب طلبہ اور مزدور طبقاتی بنیادوں پر سماجی تبدیلی کی نظریاتی سیاست میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست اور اس کی پالتو رجعتی تنظیموں کو دراصل اس بات کا خوف ہے کہ اگر عام طلبہ زندہ باد مردہ باد کی سیاست سے آگے بڑھ کر اپنے حقوق کے لیے عملی سیاست اور جدوجہد میں شامل ہو گئے تو ان کے مفادات ادھورے رہ جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب طلبہ متحد ہوکر نظریات، فلسفے، تاریخ اور عالمی سیاست کو سمجھ کر عملی جدوجہد میں شامل ہونگے تو ہی بے روزگاری، بھوک، ننگ، غربت اور تمام سماجی برائیوں کا خاتمہ ہوگا۔ فضیل اصغر نے کنونشن میں موجود تمام طلبہ اور مزدوروں کو پروگریسو یوتھ الائنس میں شمولیت کی دعوت دی اور کہا کہ سوشلزم کے انقلابی نظریات کو سمجھنا اور موجود تمام مسائل کی جڑسرمایہ دارانہ نظام کو طلبہ مزدور اتحاد کو مظبوط کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہماری زندگیوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔

کنونشن کے اختتام پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی جنرل سیکرٹری کریم پرہار نے نئی صوبائی کابینہ کا اعلان کیا۔ نئی کابینہ کو حلف برداری کے لئے سٹیج پر دعوت دینے کے موقع پر پورا آڈیٹوریم انقلابی نعروں سے گونجتا رہا۔ پروگریسیو یوتھ الائنس کی نو منتخب صوبائی کابینہ سے حلف ریلوے محنت کش یونین کے رہنما مجید زہری نے لیا، نو منتخب صوبائی کابینہ میں شامل طلبہ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

صدر: صغیر آمین
سینئر نائب صدر: اسگار خان
نائب صدر: جاوید مری
سیکرٹری جنرل: عاصم علی ورزگانی
فنانس سیکرٹری: عبدالواسع خان
اسٹڈی سرکل انچارج: بختاور بلوچ
سیکرٹری اطلاعات و انفارمیشن: نقیب اللہ

نومنتخب صوبائی کابینہ نے حلف لیا کہ وہ بلوچستان کے طلبہ کی جڑت کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے اور پورے بلوچستان میں پروگریسیو یوتھ الائنس کے پلیٹ فارم پر طلبہ کو منظم عملی جدوجہد کا حصہ بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.