مشال خان قتل کیس میں عدالتی فیصلہ نامنظور: پروگریسو یوتھ الائنس

 

مشعل خان

گذشتہ روز مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل کے خلاف جاری مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گرفتار 57 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید، 25ملزمان کوتین سال قید جبکہ 26ملزمان ’ناکافی شواہد‘کی بنیاد پر کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس کو مکمل طور پر رد کرتا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے عزت مآب جج نے’انصاف‘کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس غلیظ ریاست کے پالتو غنڈوں کو کلین چٹ دے دی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ عدالتیں حکمران طبقے کی لونڈی ہیں اور مشال خان اور اس حکمران طبقے اور ریاست کی بھینٹ چڑھنے والے بے شمار معصوموں کو انصاف دینے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں اور اس لئے اس ریاست اور اس کے اداروں کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں۔

مشال خان کا قتل پولیس، فوج اور دیگر ریاستی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ سیکیورٹی کے نام پر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو فوجی بیرکوں میں تبدیل کردینے والے مشال خان کے قتل کے وقت کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ ادارے جن کو بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہ ایسے قبیح افعال کو روک سکیں، وہ خود اس قتل میں پیش پیش تھے۔ مشال خان کو جب قتل کیا جارہا تھا اور اس کی لاش کی بے حرمتی کی جارہی تھی تو پولیس موقع پر موجود تھی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کس طرح انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن، نام نہاد ترقی پسند’پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن اور اسلامی جمعیت طلبہ جیسی تنظیموں کو ایک فرد واحد کے خلاف اس تیزی سے ایک پیج پر اکٹھا کریا گیا۔ یقیناً یہ ’پیشہ ور‘ ریاستی اداروں کی براہ راست مداخلت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کی عین ناک کے نیچے آئے روز دہشت گردی کی کاروائیاں کی جاتی ہیں۔ مگر ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان ریاستی اداروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے تاکہ یہ مکمل یکسوئی اور دلجوئی سے اپنا عوام دشمن کردار جاری و ساری رکھ سکیں اور طلبہ حقوق کے لئے بلند ہونے والی آوازوں کو کچل سکیں۔ حال ہی نقیب قتل کیس میں اس ریاست کے اداروں کا کردار بھی کھل کر سامنے آیا کہ یہ ریاست اور اس کے ادارے کس حد تک گل سڑ چکے ہیں اور روز بروز گہرے ہوتے ریاستی بحران میں یہ ادارے محنت کشوں اور عوام کے سامنے ننگے ہوتے جارہے ہیں۔ یہ عدالتیں جو خود اسی کھوکھلی سرمایہ دارانہ ریاست کا حصہ ہیں کس طرح اپنے بھائی بندوں کو سزا سنا سکتی ہیں۔ اس ریاست کو گرا کر اس کی جگہ ایک مزدور ریاست تعمیر کرکے ہی مشال کے خون کا بدلہ لیا جاسکتا ہے۔

مشال کے قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ بھی پیش پیش تھی کیونکہ مشال خان انتظامیہ کی بدعنوانی، کرپشن اور خاص طور پر فیسوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف نا صرف صدائے احتجاج بلند کررہا تھا بلکہ عام طلبہ کو منظم کرنے کے لئے بھی کوشاں تھا۔ اس حوالے سے اس سے پہلا خطرہ یونیورسٹی انتظامیہ کو ہی تھا جس نے اس کے قتل کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں اہم کردار ادا کیا۔ اور ظاہر ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایسا سیاسی پشت پناہی کے بغیر کرنے سے قاصر تھی۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا کی حکومت کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مشال کے قتل کے بعد اس کو توہین مذہب کے نام پر یونیورسٹی سے نکالنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے والے والے رجسٹرار کا نام تک شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ضلعی عہدیدار تو براہ راست اس قتل میں ملوث تھے۔ یہی نئے پاکستان اور تبدیلی کے کا حقیقی چہرہ ہے۔ انصاف کا تقاضاتو یہ تھا کہ پوری کی پوری حکومت کو ٹانگ دیا جاتا مگر معزز عدالت کے جج صاحب کی گہری نظر سے بھلا یہ لوگ کیسے اوجھل ہوگئے اور ان کو بھی کلین چٹ دے دی گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تبدیلی کے دعویداروں کے صوبے میں تعلیم اور صحت کی سب سے تیز رفتار نجکاری کی گئی ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں حالیہ عرصے میں فیسوں میں اضافوں کے خلاف ہونے والے احتجاج، ینگ ڈاکٹرز کی صحت کے شعبے میں اصلاحات کے نام پر ہونے والی نجکاری، سکولوں اور کالجوں کی نجکاری کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں ٹیچرز کے دھرنے اس تبدیلی کے ڈھونگ کا پردہ چاک کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ جب محنت کشوں اور نوجوانوں کے مفادات کی بات آتی ہے تو میڈیا پر وجود رکھنے والی تمام پارٹیوں کا کردار ایک جیسا ہے۔

مشال کے قاتلوں کے ’باعزت بری‘ ہونے پر ان کاستقبال کرنے والے ملاؤں کا کردار بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مشال خان جو کہ پاکستان میں فیسوں میں اضافے، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے خلاف ابھرتی طلبہ تحریک کا پوسٹر بوائے بن کر ابھرا ہے اور سوشل میڈیا پر سینکڑوں نوجوان اور طلبہ ’میں بھی تو مشال ہوں‘ کہتے نظر آرہے ہیں، کو گولی مارنے والے قاتل رجعتی اور فاشسٹ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا ممبر ہے۔ مذہب کے نام پر اپنی سیاست چمکانے والے سامراج اور حکمران طبقے کے دلال ان ملاؤں کر کردار اپنے جنم سے ہی محنت کش اور طلبہ دشمن رہاہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مشال خان کے نظریات کیا تھے۔ اس کے کمرے میں لگی مارکس اور چی گویرا کی تصویرں اس کے نظریات کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس لئے وہ ان انسانیت دشمن ملاؤں کو فطری حدف ٹھہرا جو کہ ہمیشہ سے محنت کشوں اور طلبہ کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے انقلابیوں کے خلاف سرگرم عمل رہے ہیں۔ مشال کے قتل کا واضح مطلب ہے کہ جو کوئی بھی فیسوں میں اضافے کے خلاف آواز بلند کرے گا یہ وحشی ملاں اس کے خلاف کھڑے ہوں گے۔ اور یوں ان کا کردار ہی عوام دشمن ہے۔ جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیم کو طلبہ ایک بار نہیں کئی بار رد کرچکے ہیں مگر ریاست کے پاس طلبہ تحریک کوکنٹرول کرنے کے لئے ان چلے ہوئے کارتوسوں کو دوبارہ استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایک بار پھر پوری قوت اس بنیاد پرست تنظیم کو طلبہ پر مسلط کیا جارہا ہے مگر ہر بار ریاست کے پالیسی سازوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ مگر معزز عدالت کے جج صاحب نے ان ملاؤں کو ’باعزت بری‘ کردیاہے تاکہ اگر کوئی نیا مشال پید اہوتو یہ اس کو بھی قتل کرسکیں۔ مگر یہ عدالتیں اور ان کے معزز جج صاحبان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ طلبہ اور نوجوانوں کے مسائل جس قدر بڑھ چکے ہیں، آج ہر طالبعلم مشال خان ہے اور اس کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ سامراجی ٹکروں پر پلنے والے یہ مٹھی بھر ملاں ان لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مشالوں کے خلاف چند لمحوں کے لئے بھی نہیں ٹک پائیں گے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مشال خان کو قتل کرنے والا تو ایک پورا ہجوم تھا اور پورے کے پورے ہجوم کوتو پھانسی نہیں لگایا جاسکتا۔ ہم ان بڑے بڑے دماغوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنیاد پر ہجوم مشتعل ہوجاتا ہے۔ یقیناًکسی بھی ہجوم کے مشتعل ہوجانے کی وجوہات کو سماج میں کوئی نہ کوئی سیاسی، مذہبی یا اخلاقی حمایت لازمی طو رپر حاصل ہوتی ہے۔ اس ریاست کا نظریہ اور اس کے قوانین ہی وہ بنیادیں ہیں جو ہجوم کے مشتعل ہونے کو بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اس مملکت خداداد کے توقانون میں توہین مذہب ورسالت کی سزا موت درج کی گئی ہے ۔ اسی ریاست کے پالے ہوئے منبر پر بیٹھے ملاں اس کا خوب پرچار کرتے بھی نظرآتے ہیں۔ سینکڑوں معصوم افراد اس سامراجی قانون کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جن پر توہین مذہب یا رسالت کر الزام لگایا گیا اور پھر ایک ’مشتعل ہجوم‘ کے ہاتھوں ان کی موت واقع ہوگئی۔ مگر کوئی بھی واقعہ اٹھا کر دیکھ لیں اس قانون کا سہارا لے کر کسی نہ کسی معاشی، مالی یا سیاسی مقاصد کی تکمیل درکار ہوتی ہے۔ یوں یہ اس ریاست کا نظریہ اور اس کے قوانین ہیں جو ان سینکڑوں معصوم لوگوں کے قاتل ہیں۔ جب تک یہ ریاست موجود ہے اسی طرح ان قوانین اور مذہب کا سہارا لے کر محنت کشوں اور طلبہ کی تحریکوں کو کچلنے کے لئے حکمران طبقات اس کا استعمال کرتے رہیں گے۔ 

مشال قتل کے خلاف تحقیقات کرنے والی جی آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن عبدالولی خان یونیورسٹی کا صدر صابر مایار، مشال خان کی سرگرمیوں کو تنظیم کے لئے خطرہ سمجھتا تھا اور اس کے قتل کی منصوبہ بندی میں پیش پیش تھا۔ اس کے علاوہ بھی PSFاور اے این پی کے عہدیداران اور یونیورسٹی ملازمین مشال کے قتل میں ملوث تھے۔ مگر یہ نام نہاد ترقی پسند قوم پرست بھی کسی طرح معزز عدالت کی نظروں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ ایک وقت تک ترقی پسند اور عدم تشدد پر قائل سمجھی جانے والی تنظیم آج اپنی زوال پذیری کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ ملاؤں کا باعزت طور پر ان عدالتوں سے بری ہوجانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر ان ’ترقی پسندوں‘ سے ریاست کو کب سے ہمدردی ہونے لگی۔ یہ عدالتی فیصلہ واضح کرتا ہے کہ یہ نام نہاد ترقی پسند جماعت اپنی خدمات دراصل حکمران طبقے کے عزائم کی تکمیل کے لئے پیش کرچکی ہے اور اسی لئے اپنی عوامی حمایت مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مشال کے قاتل ملاں اور ’ترقی پسند‘ مشال کے قتل کے چند ماہ بعد ہی انہیں مطالبات کے لئے پشاور یونیورسٹی میں دھرنا دئیے بیٹھے رہے جن کے خلاف مشال جدوجہد کررہا تھا مگر خود پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے ہی ان کو رد کردیا اور اس ریاستی حملے کو ناکام بنادیا۔ 

مشال خان کو کبھی بھی ان عدالتوں سے انصاف نہیں مل سکتا۔ مشال خان جہاں یونیورسٹی انتظامیہ کے لئے خطرہ بن چکا تھاوہیں اس کی فیسوں میں اضافے کیخلاف جدوجہد اس ریاست کے لئے بھی خطرہ تھی۔ مشال خان کے اصل قاتل یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست ہے اور اس کو اکھاڑ پھینک کر ہی اس کے خون کے حقیقی بدلہ لیا جاسکتا ہے۔ مشال خان واضح طور پر مارکسی نظریات سے متاثر تھا اور یہی نظریات آج تمام نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ مشال خان کی قربانی کو سراہنے اور خراج تحسین پیش کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کی جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ مشال خان کی قربانی تمام طلبہ اور نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہے کہ فیسوں میں اضافے، بیروزگاری، سیکیورٹی کے نام پر جاری جبر اور دیگر مسائل کے خلاف ناصرف جدوجہد کی جاسکتی ہے بلکہ فتح بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں فیسوں میں اضافے، بیروزگاری اور طلبہ یونین کی بحالی کے لئے جدوجہد کررہا ہے اور ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب تک اس جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہی مشال کے خون کا انتقام ہوگا۔

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.