بورڈ امتحانات: کلاسز کا فوری اجراء کرا کر مکمل نصاب پڑھایا جائے، پھر امتحانات لیے جائیں

|پروگریسو یوتھ الائنس|

گزشتہ ہفتے صوبائی وزراء تعلیم کی میٹنگ کے بعد 26 جون 2021ء سے ملک بھر میں بورڈ کے امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خلاف ملک بھر کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں اور امتحانات کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث صرف 54 روز ان کی کلاسز کا انعقاد ہوا اس صورت میں وہ کسی صورت امتحانات دینے کے اہل نہیں ہیں۔

May be an image of one or more people and people standing

ڈیرہ غازی خان میں احتجاج کے دوران ایک طالب علم پلے کارڈ اٹھائے کھڑا ہے۔

طلبہ کے احتجاجوں پر ریاستی کریک ڈاؤن بھی کیا گیا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس ریاستی غنڈہ گردی کی مذمت کرتا ہے۔

2020ء میں لگنے والے لاک ڈاؤن کے بعد سے لے کر اب تک تعلیم کو آن لائن ہی جاری رکھا گیا جو یقینا تعلیم کے نام پر مذاق ہی تھا، اسی وجہ سے پچھلے سال بھی امتحانات منسوخ کر دیے گئے اور طلبہ کو اگلی کلاس میں پروموٹ کر دیا گیا تھا۔ اس سال پھر آن لائن تعلیم کو ہی جاری رکھا گیا اور اب امتحانات فیزیکل لینے کی بات کی جارہی ہے۔

یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پچھلے دوسالوں میں طلبہ کا ناقابل تلافی تعلیمی نقصان ہوا ہے جس پر کوئی بات ہی نہیں کی جا رہی۔ اس سارے عرصے میں سلیبس مختصر کیا گیا اور وہ بھی مکمل طور پر طلبہ کو نہیں پڑھایا گیا۔ جو پڑھایا بھی گیا وہ واٹس ایپ تک ہی محدود پڑھائی تھی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ فوراً تمام طلبہ، اساتذہ اور شعبہ تعلیم کے دیگر عملے کو ویکسین لگائی جائے اور تمام تعلیمی اداروں کو کھولا جائے۔ تعلیمی اداروں کو فوراً کھولنے کے بعد تعلیمی نقصان کو پورا کیا جائے اور پھر امتحانات لیے جائیں۔

پاکستان میں تعلیم کا شعبہ دیگر شعبہ جات کی طرح ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس سے نجی تعلیمی مافیا ہر طرح سے منافعے بٹور رہا ہے۔ ریاست نے اسی مافیا کو نوازنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ بارہا تعلیم کا بجٹ کاٹا گیا، سرکاری تعلیمی اداروں کو تباہی کے دہانے پہ پہنچایا گیا۔ لہٰذا اس وقت پاکستان کا نظام تعلیم مکمل انہدام کا شکار ہے۔

موجودہ صورتحال میں امتحانات کا مقصد بھی نجی مافیا کی لوٹ مار کو جاری رکھنا ہی ہے۔ وبا کے دوران ڈیڑھ سال تعلیمی ادارے بند رہے مگر اس دوران آن لائن تعلیم کے نام پر ڈرامہ چلا کر تمام نجی اداروں نے ہر ماہ کی فیسیں وصول کی ہیں۔

وبا کے دوران آن لائن کلاسز کا ڈھونگ رچایا گیا جبکہ ایک ایسی صورتحال میں جب 48 فیصد سے زائد نوجوان صرف موبائل فون کی سہولت سے ہی محروم ہیں۔ انٹرنیٹ کی صورتحال اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ اول تو کئی جگہوں پر سگنل ہی نہیں آتے اور جہاں آتے بھی ہیں تو ہاں اکثریت کے پاس اسے استعمال کرنے کے پیسے ہی نہیں۔ ایسے میں حکومت کا یہ بیانیہ کہ آن لائن سب پڑھایا گیا ہے، سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔

درحقیقت پاکستان کا تعلیمی نظام اس وقت زمین بوس ہو چکا ہے اور ریاست پاکستان کو اس حوالے سے کوئی پرواہ نہیں۔ پاکستان کے حکمران چونکہ اس حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں ہیں، لہٰذا ان کے پاس اس بحران کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ پالیسی ہی موجود نہیں۔ اس ملک میں مقیم کروڑوں محنت کشوں کی اولادیں اگر مستقل بنیادوں پر جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتی ہیں تو ڈوبتی رہیں، پاکستان کے حکمرانوں کی اپنی اولادیں تو بیرون ممالک میں زیر تعلیم ہیں، لہٰذا انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسی طرح کروڑوں نواجوان بے روزگار ہیں اور انہیں روزگار دینے کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی بھی سنجیدہ حکمت عملی سامنے نہیں آرہی اُلٹا مزید روزگار چھینا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور آمدن تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔

ایسے میں پاکستان کے نظام تعلیم کو بچانے کیلئے اب طلبہ کو ملک گیر تحریک چلانی ہوگی۔ اپنے اپنے تعلیمی ادارے اور محلے کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ اسی طرح ان کمیٹیوں کو آپس میں جوڑ کر ایک ملکی سطح کی کمیٹی تشکیل دینا ہوگی۔ یہ کمیٹی طلبہ کو ملک گیر سطح پر منظم قوت میں تبدیل کر دے گی۔ ایک ملک گیر سطح کی طلبہ تحریک ہی یہاں کے حکمرانوں کو شعبہ تعلیم کی طرف توجہ دینے پر مجبور کرا سکتی ہے۔ اسی صورت میں ہی شعبہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرایا جا سکتا ہے اور نظام تعلیم کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اب جدوجہد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا۔۔ساتھیو، ملک گیر سطح پر منظم جدوجہد کا آغاز کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.