|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیراہتمام آج چوپال ناصر باغ میں ’’سی پیک: ترقی یا سامراجی غلامی؟‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس 35 سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ سیمینار میں شرکت کرنے والے طلبہ کی اکثریت کا تعلق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تھا۔ اس کے علاوہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف لاہور اور رائل کالج سے بھی طلبہ سیمینار میں شریک تھے۔ سیمینار میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض زین العابدین نے سرانجام دئیے۔
موضوع پر بات کرتے ہوئے آدم پال نے کہا کہ آج ہر ٹی وی چینل اور اخبارات میں سی پیک کے حوالے سے بہت کچھ دکھایا اور لکھا جا رہا ہے مگر کوئی بھی چینل یا اخبار عوام کے سامنے سی پیک کی اصل حقیقت بیان نہیں کر رہا جو کہ ایک سامراجی لوٹ مار کا منصوبہ ہے جس میں پاکستانی حکمران طبقہ اور تمام سیاسی پارٹیاں اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہیں۔ جس چینی انوسٹمنٹ کی دن رات باتیں کی جا رہی ہیں وہ اصل میں بھاری سود پر قرضے ہیں جس کی ادائیگی کے لئے یہاں کے محنت کشوں کا خون مزید نچوڑا جائے گا۔ پہلے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لئے آج تک اس ملک کے محنت کشوں پر ظلم اور استحصال کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ چین سے آنے والے یہ قرضے کسی قسم کی خوشحالی اور ترقی لے کر نہیں آئیں گے بلکہ غربت، افلاس، لاعلاجی، بے روزگاری اور لوٹ مار میں اضافہ ہوگا۔
یہاں کے حکمران اس ملک میں موجود ہر مسئلے کا حل سی پیک کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور دن رات چین کی دوستی کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ اس لوٹ مار اور کرپشن میں ناصرف یہاں کے حکمران بلکہ چینی حکمران طبقہ بھی برابر کا شریک ہے اور یہ دوستیاں دراصل لوٹ مار اور کمیشن کے لئے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے لگائے جانے والے پاور پلانٹس میں ریکارڈ کرپشن کی جا رہی ہے۔ نندی پور پاور پلانٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ایک یونٹ بجلی کا پیدا نہیں کیا جاسکا۔ یہ پاور پلانٹ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تو دور کی بات بلکہ جو تھوڑی بہت بجلی مل جاتی ہے وہ بھی غائب کر دیں گے۔ یہ حکمران سی پیک کو بیروزگاری کا حل بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ سی پیک کی تکمیل اور چینی مصنوعات کے پاکستانی منڈی میں آنے سے بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہونے کی طرف گئی ہیں جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے ساتھ چین کے سامراجی عزائم جڑے ہیں جس کا امریکی سامراج کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ ہے جو کہ ایک لمبے عرصے سے یہاں موجود ہے۔ ان سامراجی طاقتوں کے اپسی ٹکراؤ کے نتیجے میں یہاں خون کی نہریں بہائی جائیں گی۔ پہلے ہی بلوچستان میں فوجی آپریشن سے ظلم کی انتہا کردی گئی ہے۔ سیاسی کارکنوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ سی پیک سے بلوچستان کے لوگوں کی محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہ حکمران اور دلال میڈیا جس چینی انوسٹمنٹ کے آنے سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کرتا ہے وہ کبھی چینی محنت کشوں کے حالات نہیں بتاتے۔ چین میں امارت اور غربت کی خلیج دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ قریباً بیس کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہیں۔ کروڑوں لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ استحصال اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے جس کے خلاف بڑے پیمانے پر ہڑتالیں اور احتجاج آئے روز ہوتے ہیں۔ جو سرمایہ کاری چین میں خوشحالی نہیں لاسکی وہ یہاں کیسے خوشحالی لے کر آئے گی۔ مگر کوئی سیاسی جماعت اس سامراجی لوٹ مار اور کرپشن کے خلاف بات نہیں کر رہی۔ اس وقت تمام سیاسی پورٹیاں اس لوٹ مار میں اپنے حصے کو بڑھانے کے لئے تگ ودو میں ہیں۔ ایسے میں بھلا کرپٹ فوجی اشرافیہ کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ سی پیک کی سیکیورٹی اور ٹھیکوں کی مد میں کرپٹ فوجی ٹولا بھی اپنا حصہ بھرپور طریقے سے وصول کر رہا ہے۔ اس سامراجی لوٹ مار کا مقابلہ صرف اور صرف طبقاتی بنیادوں پر ایک لڑائی لڑ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس سامراجی لوٹ مار کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں شریک طلبہ مختلف نوعیت کے بے شمار سوالات اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ سولات کے بعد راشد خالد اور عدیل زیدی نے موضوع کے حوالے سے بات رکھی ۔ اس کے بعد آدم نے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سامراجی لوٹ مار کے خلاف ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں نوجوانوں کا بہت اہم کردار بنتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں اس مزدور دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں کو بھی ناصرف منظم ہونے بلکہ مارکسزم کے نظریات سیکھنے اور محنت کش طبقے کے ساتھ جڑت بنانے کی ضرورت ہے۔