|رپورٹ: جلال جان|
پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کے زیر اہتمام 10مئی بروز بدھ د وپہر 2بجے PMA ہاؤس آغاخان سوئم روڈ صدر کراچی میں شہید مشال خان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں کراچی یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی، انڈس کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے طالبعلموں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکنوں نے شرکت کی۔ سیمینار کا عنوان ’مشال خان کی شہادت اور طلبہ تحریک کا مستقبل‘ رکھا گیا تھا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض میزان راہی نے ادا کیے۔ سیمینار سے انعم پتافی، ثناء اللہ زہری، جلال جان، عبید ذوالفقار، جموں کشمیر سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ کے نمائندے، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رحمت خان، وفاقی اردو یونیورسٹی عبدالحق کیمپس سے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سینئر کارکن افغان یار، کامریڈ عطاءاللہ آفریدی، فارس کامریڈ، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی یونیورسٹی کے مزمل اور کامریڈ پارس جان نے خطاب کیا۔ ننھی کامریڈ زیبا نے انقلابی نظم بھی پیش کی۔
مقررین نے مشال خان کی جدوجہد کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے ریاست اور حکمران طبقات کو خبردار کیا کہ اگر مشال خان کے قاتلوں کو کسی بھی قسم کی رعایتیں دینے کی کوشش کی گئی تو نوجوان سروں پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل آئیں گے۔ رحمت خان نے مذہبی جنونیوں کے خلاف ترقی پسند طلبہ کا ایک اتحاد بنانے کی ضرورت پرزور دیا۔
افغان یار اور عطا آفریدی نے پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کی سیاسی زوال پذیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تنظیم ماضی میں ایک ترقی پسند تنظیم ہوا کرتی تھی مگر اب اس میں ملاں گھس آئے ہیں۔ آج بہت سے نوجوان اس پروگرام میں شرکت کرنا چاہتے تھے مگر اس تنظیم کے ڈاکٹر کے نام سے جانے جانے والے ایک لیڈر نے کہا کہ جو بھی مشال خان کے لیے منعقد کیے گئے پروگرام میں شرکت کرے گا اسے تنظیم سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ اس بات سے نوجوانوں میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور اسلامی جمعیت طلبہ میں بھلا اب کیا فرق رہ گیا ہے۔ مزمل نے کہا کہ ہمیں طلبہ کے مسائل کو اپنی جدوجہد میں سرِ فہرست رکھنا ہو گا اور اس ریاست کے خلاف لڑنا ہو گا جو مشال کی اصل قاتل ہے۔
آخر میں کامریڈ پارس جان نے کہا کہ آج کے سیمینار میں صرف نوجوان ہی سٹیج پر بولے ہیں، یہ نئی نسل کا نمائندہ سٹیج ہے جو مشال خان کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ پرانے نام نہاد انقلابی پروفیسر صاحبان کے پاس نوجوانوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں بلکہ وہ مایوسی پھیلاتے ہیں اور بورژوا دانشوروں کی طرح نئی نسل کو رجعتیت اور طالبانائزیشن سے ڈرا کر اپنے حقوق کی جدوجہد سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ وہ سب ماضی کے نمائندے ہیں۔ یہ نوجوان مستقبل کی نوید ہیں۔ مشال خان کی جدوجہد اب تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انہوں نے رحمت خان کی تجویز کو سراہا مگر ساتھ ہی رحمت خان کو کہا کہ یہ درست وقت ہے کہ اپنی تنظیم کی اصلیت کا جائزہ لیا جائے۔ عمران خان کوئی ترقی پسند نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی کی ذہنیت رکھتا ہے۔ آپ کو اپنی تنظیم میں آواز اٹھانی چاہیئے کہ مشال خان کے قاتل کو تھائی لینڈ بھگانے والے کا بھی احتساب کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سمیت ساری پارٹیاں سٹیٹس کو کی نمائندہ ہیں۔ حکمران نظام کے بحران کے باعث تعلیمی اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں۔ IMF اور ورلڈ بینک نے انہی شرائط پر قرضے دیئے ہیں۔ اس سے تعلیم مہنگی ہو گی۔ نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں اترنا پڑے گا اور وہ ان ماضی کی نمائندہ تمام سیاسی قوتوں کو مسترد کرتے ہوئے نئی قیادت تراش لائیں گے۔ ہمیں اس وقت کی تیاری کرنی ہو گی۔ آخر میں پارس جان نے ’میں بھی تو مشال ہوں ‘ نظم سنا کر سیمینار کا اختتام کیا۔