|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
گذشتہ روز بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کی جانب سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کا عنوان ’’کیا سی پیک پاکستان سے بے روزگاری کا خاتمہ کر سکتا ہے؟‘‘ تھا۔ سیمینار میں یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس سے تعلق رکھنے والے 60 کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔ ان ڈیپارٹمنٹس میں انٹر نیشنل ریلیشنز، پولیٹیکل سائنس، کریمینا لوجی اور پبلک ایڈمنسٹریشن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ سٹوڈنٹ کونسل کے وفد نے بھی اس سیمینار میں شرکت کی۔ یونیورسٹی میں کچھ سمیسٹرز کے طلبہ کے امتحانات اور اسائنمنٹس وغیرہ جیسے مسائل کی وجہ سے بہت سارے طلبہ سیمینار میں شامل نہ ہو سکے اور کچھ طلبہ کو لیکچر لینے کیلئے بھی سیمینار سے اٹھ کر جانا پڑا۔
سیمینار کے آغاز میں راول اسد نے پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف پیش کیا اور اس کے اغراض ومقاصد پر بات رکھی۔ اس کے بعد فضیل اصغر نے موضوع پر بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک درحقیقت ایک سامراجی منصوبہ ہے جس پر عملدرآمد کے لئے پاکستانی حکمران طبقہ اپنی لوٹ مار کی ہوس میں چینی حکمران طبقے کا گماشتہ بنا ہوا ہے۔ میڈیا میں ہر روز جس چینی سرمایہ کاری کا ذکر کیا جاتا ہے وہ دراصل بھاری سود پر قرضے ہیں جو کہ اس ملک کی عوام کو لوٹانے پڑیں گے۔ پہلے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے قرضے واپس کرتے ہوئے کئی نسلیں برباد ہو چکی ہیں اور وہ قرضے ابھی بھی واجب الادا ہیں۔ یہ منصوبہ مستقبل قریب میں پاکستانی معیشت کیلئے ایک زہر قاتل ثابت ہوگااور ڈوبتی ہوئی پاکستانی معیشت کے زوال میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہاں سی پیک کے مکمل ہونے سے بیروزگاری کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے جو کہ سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ چینی سرمایہ آنے سے پہلے سے موجود روزگار تباہی کا شکار ہوا ہے اور کئی صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں محنت کش بیروزگاری کا شکار بنے ہیں۔ نیا روزگار تو دور کی بات ہے یہ سامراجی منصوبہ خطے کو سامراجی طاقتوں کا اکھاڑہ بنا دے گا۔ اس سامراجی لوٹ مار کا قومی بنیادوں پر مقابلہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ مٹھی بھر پاکستانی حکمران طبقے کو شکست دے کر ہی اس سامراجی لوٹ مار کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد طلبہ نے نہایت ہی شاندار سوالات کیے جن میں سی پیک سے لے کر زائد پیداواریت کے بحران تک کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس کے بعد عمار، ماہ بلوص اورجئیند نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آخر میں فضیل اصغر نے تمام سوالات کا جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔
سوالات کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ ان کے جوابات تفصیل طلب بحث کا تقاضہ کرتے تھے مگر وقت کی کمی کے باعث پروگرام کا جلد اختتام کرنا پڑا۔ مگر طلبہ کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا جس کو حاضرین نے بہت سراہا۔