سندھ: ادب، سماج، سیاست، معیشت اور انقلاب کے موضوعات پر مختلف شہروں میں لیکچر پروگرامز کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ|

پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ کی جانب سے سندھ کے مختلف شہروں میں لیکچر پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے بھرپور شرکت کی۔ پہلا پروگرام ضلع سجاول کے شہر دڑومیں ”نوجوان، انقلاب اور نیا سماج“ کے عنوان پر اور دوسرا پروگرام ٹنڈو محمد خان شہر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے تعاون سے ”ادب اور سیاست“ کے موضوع پر منعقد کیا گیا۔ اس کے بعد میرپور خاص کے گاؤں اصغر خان میں ”تعلیم کا بحران اور سوشلسٹ انقلاب“ کے عنوان پر اور پھر سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں ”بیگانگی اور سماج“ کے موضوع پر پروگرام کیے گئے۔ اس سلسلے کا پانچواں پروگرام سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ”سیاسی و معاشی بحران: حل کیا ہے؟“ کے عنوان سے کیا گیا اور اس کے بعد ”پاکستان کا معاشی اور سیاسی بحران اور اس کا حل“ کے عنوان سے نوشہرو فیروز میں سیمینار منعقد کیا گیا۔ آخری پروگرام ضلع خیرپور میرس کی تحصیل ٹھری میرواھ کے گاؤں بوزدار وڈا میں ”سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے“ کے موضوع پر کیا گیا۔

ان تما م سرگرمیوں میں عالمی مارکسی رجحان کے رہنماء اورکتاب ”لبرلزم پر مارکسی تنقید“ کے مصنف کامریڈ پارس جان کو بطور مقرر مدعو کیا گیا تھا۔ کامریڈ پاس جان سمیت مقررین کا کہنا تھا کہ تمام انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے جو انقلابات کے ذریعے سے آگے بڑہتی ہے۔ اور ان انقلابات کے ذریعے ہی پرانے سماج کی کوکھ سے نئے سماج کا جنم ہوتا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر کے گلنا اور سڑنا شروع ہوچکا ہے، اب یہ سماج کو مزید ترقی دینے کی صلاحیت کھو چکا ہے اور جس کی جگہ لینے کے لئے ایک نیا سماج ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ سماج کی سائنسی تبدیلی کے لئے مظلوم طبقات کو مل کر اس نئے سماج یعنی سوشلزم کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔

ادب پر بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ ادب کسی بھی سماج کا آئنہ دار ہوتا ہے۔ سرمایہ داری میں ہر شے کی طرح ادب بھی بیچنے کی غرض سے تخلیق کی جانے والی کموڈٹی بن گیا ہے، اس لئے ادیب سمیت اس کا تخلیق کیا گیا ادب سماج سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو شاعر بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی نجی محفلوں کے مسخرے بن چکے ہوں اور مظلوم طبقات کی نجات کی خاطر ترقی پسند سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے ہیں۔ تعلیمی بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تعلیمی بحران کو سرمایہ دارانہ نظام اور پھر اس کے نامیاتی بحران سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک سارہ تعلیمی ڈھانچہ زمین بوس ہوچکا ہے، جس میں اصلاح کی رتی بھر گنجائش موجود نہیں ہے۔ جو تعلیم منافع کی غرض سے دی جاتی ہو اور جس کے حصول کا مقصد ہی نوکری ہو تو وہاں سوچنے سمجھنے والے اذہان نہیں بلکہ شاہ دولہے کے چوہے پیدا ہوتے ہیں۔ اس وقت تعلیمی ادارے علم کے منارے نہیں بلکہ روبوٹس بنانی والی فیکٹریاں ہیں، اس لئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست کے قیام کے بعد ہی تعلیم کے کاروبار پر مکمل پابندی لگا کر ہر شہری کو مفت سائنسی تعلیم دی جاسکتی ہے۔

سماج میں بڑہتے ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور مختلف ذہنی امراض کی جڑیں مارکسزم کی انقلابی سائنس کے مطابق مادی دنیا میں پیوست ہیں۔ آج انسان اپنے سماج، دیگر انسانوں اور خود اپنے آپ سے بیگانہ ہوچکے ہیں جس کا عکس میں ہمیں ادب، مصوری، موسیقی اور فلم میں بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ یونیورسٹی ہاسٹلز میں طلبہ کی جانب سے ہونے والی خودکشیاں ایک معمول بن گیا ہے جس کی وجہ بڑہتا ہوا معاشی دباؤ اور جڑ پکڑتا ہوا عدم تحفظ کا احساس ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی رشتوں سمیت احساسات کو بھی منافع کی بھینٹ چڑہا دیا ہے۔

عالمی سیاست و معیشت کے بحران، روس یوکرین جنگ، سری لنکا و ایران سمیت مختلف ممالک میں اٹھنے والی تحریکوں پر بھی خصوصی بات کی گئی۔مقررین کا کہنا تھا کہ اس بحران نے پہلی اور تیسری دنیا کی نام نہاد تقسیم کو چیر کر رکھ دیا ہے اور ترقی پزیر سمیت ترقی یافتہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس بحران سے بچنے کے لئے یورپ کے ممالک نے تحفظاتی پالیسیاں اپنائیں تو یورپی یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور برطانیہ، جس کو سرمایہ داری کی جنم بھومی کہا جاتا ہے، جیسے ملک میں ایک سال میں تین وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ سرمایہ دارانہ نظام مزید تباہی پھیلائے گا اینگلز کے الفاظ میں ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں سوشلزم یا بربریت۔

پاکستانی ریاست، سیاست اور معیشت کے بحران پر تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستانی ریاست مظلوم اقوام کا زندان اور ایک جبری وفاق ہے، جو نام نہاد دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ یہ ریاست نہ صرف آج بلکہ اپنے جنم ہی سے سامراج کے ٹکڑوں پر پلتی آرہی تھی جس کے بدلے میں اس ریاست نے سامراج کو سوشلزم کے خلاف جنگ، افغان ثور انقلاب کو خون میں نہلانے اور اس خطے کو مذہبی منافرت اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑہانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہ ملک اب بھی آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کے آگے دم ہلانے پر مجبور ہے۔سرمایہ دارانہ انتشار کے باعث اگر یہ ملک ٹوٹا تو مزید بربادی کا دور دورا ہوگا۔

لہٰذا آج کے انقلابیوں پر یہ ذمہ اری عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلدسوشلزم کے انقلابی نظریات کے تحت انقلابی پارٹی کو تعمیر کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی قیادت میں اس سرمایہ دارانہ ریاست کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ کریں اور مظلوم اقوام کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کرکے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھیں۔ انسان دشمن نظام سرمایہ داری کے موجودہ بحران کا سائنسی حل تمام پیداواری ذرائع کی نجی ملکیت ختم کر کے ان کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلانا ہے اور یہ کام سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے قائم ہونے والی مزدور ریاست ہی کر سکتی ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر میں طلبہ اور نوجوانوں کو سوشلزم کے انقلابی نظریات کے گرد منظم کر رہا ہے۔ پی وائی اے کا ممبر بننے کے لیئے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.