|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد|
4جنوری، بروز اتوار پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد کی جانب سے ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ یہ سکول ایک سیشن پر مشتمل تھا، جس میں عظیم فلسفی کارل مارکس کے مضمون ’اجرتی محن اور سرمایہ‘ پر بحث کی گئی۔ کامریڈ عبید سیال نے سیشن کو چیئر کیا اور کامریڈ مجید پنھور نے مذکورہ موضوع پر لیڈ آف دی۔ کامریڈ مجید نے مضمون کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ کارل مارکس نے اس مضمون میں سرمایہ داری کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے اجرتی محنت اور سرمائے کے آپسی تعلق، اور ان کے پس پشت جو محرکات ہیں ان کی وضاحت کی ہے۔ جن کے مطابق اجرت مزدور کو اس کی قوتِ محنت بھیجنے کے نتیجے میں سرمایہ دار سے ملنے والی مخصوص رقم ہے۔ جس کا تعین کسی شے کے بنانے میں صرف شدہ قوتِ محنت کے وقت سے کیا جاتا ہے۔ یعنی قوتِ محنت ایک جنس ہے جس کی قیمت کو اجرت کہتے ہیں اور اسے دیگر جنس یا اشیاء کی طرح وقت کے سانچے سے ماپا جاتا ہے۔ اور وہی اس کو مقرر کرنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو محنت کش کے پاس اپنی قوتِ محنت کے سوا کچھ بھی نہیں لہٰذا اُس کے پاس اِسی کو بیچ کر زندگی گزارنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
اسی طرح سرمایہ داروں کے معذرت خواہان کہتے ہیں کہ یہ آزاد معاہدہ ہے تو کیا کسی محنت کش کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ محنت نہ کرے؟ جواب نفی میں ہو گا کیونکہ محنت کش کے پاس زندہ رہنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ اس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے اندر محنت کش ایک جدید غلام کی شکل اختیار کر جاتا ہے جسے آزاد معاہدہ کا صرف ایک لبادہ پہنایا جاتا ہے۔ جس طرح غلام دارانہ عہد میں غلام اپنے آقاؤں کی مِلکیت تھے اور جاگیر دارانہ عہد میں مزارعے جاگیردار کی، اسی طرح موجودہ سرمایہ دارانہ عہد میں محنت کش سرمایہ دار طبقے کی مِلکیت ہے۔ کامریڈ مجید نے سرمائے اور اجرت کے تعلق پر مزید بات رکھی۔ اس کے بعد کامریڈ حئی اور کامریڈ علی عیسیٰ نے اس بحث میں حصہ لیا۔ اختتام میں کامریڈ پارس نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ پروفیسرز صاحبان اور ٹی وی چینلوں میں بیٹھے دانشوروں کے برعکس ہم مار کس وادی چیزوں کو کاٹ کر انہیں الگ الگ کرنے کی بجائے انہیں جوڑ کر دیکھتے ہیں جس کے سبب ہم سرمائے کو ایک پراسس اور کُل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے اندر ہی ہم سرمائے کے اندرونی تضادات اور ان کے سبب ہونے والے تبدیلیوں، اجرت کے تعین، طلب اور رسد کی حقیقت اور دیگر چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ کامریڈ پارس نے شرکاء کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اس بحث کا اختتام کیا۔