|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، فیصل آباد|
20دسمبر بروز بدھ، پروگریسیو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام کیانی ہال فیصل آباد میں شاندارFeesMustEnd یوتھ کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں فیصل آباد کی تمام یونیورسٹیوں جن میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی، NFC، نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کے علاوہ پاور لومز ورکرزکی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کنونشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض زرعی یونیورسٹی سے اختر منیر نے انجام دیے۔ پروگرام کے آغازانقلابی شاعری اور انقلابی ترانوں سے کیا گیا۔ کنونشن کے آغاز پر اختر منیر نے پروگریسیو یوتھ الائنس کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور طلبہ کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل اور ان کے حل پر تفصیل سے بات کی۔ اختر نے تمام حاضرین بالخصوص پاور لومز مزدوروں کا کنونشن میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
یوتھ کنونشن کے پہلے مقرر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ساحر جان نے طلبہ کے بڑھتے ہوئے مسائل جیسے فیسوں میں اضافہ، یونیورسٹی میں ہاسٹلز کا فقدان، سکیورٹی کے نام پر انتظامیہ کی غنڈہ گردی، یونیورسٹی بسوں کی عدم دستیابی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ طلبا جو انٹرمیڈیت تک تعلیم مکمل کرتے ہیں ان میں سے صرف 3فیصد طلبہ ہی یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں اور ان 3 فیصد طلبہ کو بھی یونیورسٹیوں میں بے شمار مسائل کاسامنا ہے۔ وہ طلبہ جو خوش قسمتی سے اس تمام ظلم و جبر کے باوجود ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ جب یونیورسٹی سے نکلتے ہیں تو بے روزگاری کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کا استقبال کرتا ہے۔ساحر نے مزید کہا کے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی حالیہ تحریک ہمیں یہ سبق دیتی کہ اگر طلبا متحد ہو کر انتظامیہ کے خلاف ڈٹ جائیں تو انتظامیہ کو جھکنے اور اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے خدیجہ ایوب نے طلبہ سیاست کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ طلبہ کی سیاست سے دوری ان بڑھتے ہوئے مسائل کو نہ روک سکنے کی وجہ بن رہی ہے۔ خدیجہ نے کہا ضیا الحق کے دور میں طلبہ سیاست پر پابندی لگائی گئی جو کہ آج تک موجود ہے جو طلبا کو غیر منظم رکھنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ دوسری طرف مختلف سیاسی جماعتوں کی غنڈہ گرد تنظیموں کی ریاستی پشت پناہی بھی طلبہ کی سیاست سے دوری کی بڑی وجہ ہے۔ لہٰذا اگر طلبہ اپنے تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ان کو متحد ہو کر طلبہ سیاست کا حصہ بننا ہو گا اور پروگریسیو یوتھ الائنس ہی وہ پلیٹ فارم ہے جس پر پورے پاکستان کے طلبہ اکٹھے ہو رہے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی سے انس نے سکیورٹی کے نام پر انتظامیہ کی غنڈہ گردی پربات کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں میں اتنی ذیادہ سکیورٹی ہونے کے باوجود آئے روز مختلف تعلیم اداروں میں دہشت گردی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انس نے مزید کہا کہ یہ سکیورٹی کسی دہشت گردی کو روکنے کے لیے نہیں بڑھائی گئی بلکہ طلبہ کے بڑھے ہوئے مسائل کے نتیجے میں ممکنہ طلبہ تحریک کو روکنے کے لیے بڑھائی گئی ہے۔ پی وائے اے لاہو ر سے رائے اسد نے بھی طلبہ کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کو اتنا ذیادہ مہنگا کر دیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی غریب آدمی اپنے بچے کو پڑھا نہ سکے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جی سی یونیورسٹی کے طالبعلم شاہ زیب نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ انتہائی غیر معیاری تعلیم ہے جس کے حاصل کرنے کے باوجود بھی نوجوان ان پڑھ معلوم ہوتے ہیں۔ شاہ زیب نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے معیاری تعلیم کا حصول ناممکن ہے۔ لہٰذا تمام طلبہ کو متحد ہو کر مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ مل کر اس سماج کو اس سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کر کے ایک سوشلسٹ نظام کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔ زرعی یونیورسٹی سے عاطف اور عثمان نے بھی طلبہ کے بڑھتے ہوئے مسائل کا حل طلبہ کی سیاست میں شرکت سے منسوب کی۔ ایمرسن کالج ملتا ن کے طالبعلم اور پی وائے اے ملتان کے سرگرم رکن وقاص نے پروگریسو یوتھ الائنس کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی ایک یونیورسٹی یا کالج میں اگر کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو ہمیں پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں ہڑتال کی کال دینی چاہیے کیونکہ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ کے مسائل مشترک ہیں لہٰذا لڑائی بھی مشترک ہونی چاہیے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے قاسم نے کہا کہ طلبہ تحریک اگر صرف طلبہ تحریک رہے گی تو بہت جلد ناکام ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا اس طلبہ تحریک کو مزدور تحریک کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ اگر مزدور اپنے حقوق کے لیے ہڑتال کریں تو طلبہ کو ان کا ساتھ دینا چاہیے اور اگر طلبہ ہڑتال کریں تو مزدوروں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔
پاورلومز کے مزدوروں کی نمائندگی کرتے ہوئے عبداللہ رحمت نے کہا کہ آج ہمارے تن پر جو کپڑے ہیں وہ انہی مزدوروں کی مرہون منت ہے۔ اگر یہ مزدور کپڑا نہ بنائیں تو ہمارے پاس تن ڈھانپنے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔ لیکن یہی مزدور جو تمام دنیا کے لوگوں کے لیے کپڑا بناتے ہیں ان کے حالات ایسے ہیں کہ یہ نہ تو اپنے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں، نہ بیمارہونے کی صورت میں معیاری دوائی لے سکتے ہیں اور ان مزدوروں میں ستر فیصد سے بھی ذیادہ مزدور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ مزدور طبقہ ہی وہ واحد طبقہ ہے جس کی وجہ سے سماج، ملک اور دنیا کا نظام چلتا ہے۔ اگر مزدور کام سے ہاتھ روک لے تو ساری دنیا کا نظام رک جائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ ، مزدوروں اور کسانوں کو مل کر ایک سوشلسٹ نظام کی تشکیل کرنی چاہیے جس نظام میں غربت، ناخواندگی، بیروزگاری، لا علاجی ایک جرم ہو گا۔ عبداللہ نے مزید کہا کے ہمارے مزدور بھائی طلبہ کی کسی بھی تحریک میں ان شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، اسی طرح طلبا کو مزدوروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
یوتھ کنونشن میں کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے ارسلان غنی نے خصوصی شرکت کی اور حاضرین کو برطانیہ میں طلبہ کے مسائل کے بارے میں بتایا۔ ارسلان غنی نے بتایا کہ برطانیہ میں طلبہ کے مسائل پاکستان کے طلبہ کے مسائل سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب برطانیہ سمیت سارے یورپ میں تعلیم مفت ہوا کرتی تھی مگر آج ایک طالب علم کو 9000 پاؤنڈ سمسٹر کی فیس جمع کروانی کرتی ہے جو چند سال پہلے 3000 پاؤنڈ تھی۔ برطانیہ میں طلبہ کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے اور تعلیم کے حصول کے لئے اٹھائے گئے قرض کو چکانے کے لئے پڑھائی کے دوران مختلف قسم کی نوکریاں کرناپڑتی ہیں اور جب پڑھائی سے فارغ ہوتے ہیں تو ہر طالب علم کے سر پر ہزاروں پاؤنڈ قرض ہوتا ہے جسے ادا کرنے میں نوجوانوں کی ساری عمر لگ جاتی ہے۔ ارسلان غنی نے مزید کہا کہ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے اب اس نظام میں یہ سکت نہیں رہی وہ عوام کو کوئی سہولت دیں سکیں بلکہ جو سہولتیں کسی زمانے میں دی گئی تھی وہ تمام سہولیات ایک ایک کر کے واپس لی جارہی ہیں۔
اس کے بعد پروگریسیو یوتھ الائنس فیصل آباد کی نومنتخب آرگنائزنگ کمیٹی کا اعلان کیا گیا جس میں ساحر، شاہ زیب، انس، عاطف اور مہروز گل شامل ہیں۔
اختتامی تقریر کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین نے شاندار یوتھ کنونشن منعقد کرنے پر فیصل آباد کی ٹیم کو مبارک باد پیش کی اور مزدوروں کی خصوصی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ زین العابدین نے طلبہ تحریک کو درست نظریات پر استوار کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ درست نظریات کے بغیر کوئی بھی جدوجہد کامیاب نہیں ہوسکتی اور آج کے عہد میں یہ مارکسزم کے نظریات ہی ہیں جن کی بنیاد پر درپیش بحران اور مسائل کو درست تجزیہ کیا جاسکتا ہے اور یہی نظریات ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں انسانیت کو غربت، مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی، لاعلاجی سے پاک ایک روشن مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔
پروگرام کے اختتام پر ساندل ناٹک کی ٹیم نے طلبہ کے مسائل اور ان کے حل پر ایک سٹیج ڈرامہ پیش کیا جسے حاضرین بے حد پسند کیا۔ اس بعد طلبہ اور مزدور سرخ پرچم اٹھائے ، ایک ریلی کی شکل میں پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے جہاں مہنگائی، بیروزگاری، دہشت گردی، مہنگی تعلیم اور لاعلاجی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔