اسلام آباد: انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کے طلبہ کا احتجاجی کیمپ

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|

اس وقت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں شدید بحران کا شکار ہے، جس کا اظہار ہمیں روزمرہ کے مختلف چھوٹے اور بڑے واقعات میں ملتا ہے۔ مختلف ممالک کی حکومتیں سرمایہ داروں کی جیبیں بھرنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہیں جس نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ایسے ہی کچھ فیصلے پاکستان کی حکومت بھی کرتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ سال تعلیمی بجٹ میں پچاس فیصد سے زائد کمی ان عوام دشمن اقدامات کی ایک کڑی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف فیسوں میں ناقابل برداشت اضافہ دیکھنے کو ملا بلکہ آئے روز اس کے اور بھی گھٹیا نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جس کے خلاف زندگی کے تمام شعبہ جات میں مزاحمت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایسے ہی مزاحمت کا علم بلند کیے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے طلبہ بھی اپنے جائز مطالبات کے حق میں، کلاسوں کا بائیکاٹ کر کے سراپا احتجاج ہیں۔ یہ طلبہ تین دنوں سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ دس فروری کو سول انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے تمام طلبہ نے یونیورسٹی کے بی بلاک کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور ایڈمن کے سامنے دھرنا دیا۔ یہ دھرنا انہوں نے شدید سردی کی ان راتوں میں بھی جاری رکھا اور رات ایڈمن کے سامنے ہی بسر کی۔ احتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان انجینئرنگ کونسل کی جانب سے ایکریٹیڈیشن نہیں دی جا رہی۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل نے طلبہ کی ڈگریوں کے الحاق کے لیے کچھ شرائط رکھی تھیں جن میں ایک الگ بلاک کا ہونا، ایک لیب کا ہونا اور کچھ مشینیں جیسے یو۔ٹی۔ایم (جس کی قیمت ساڑھے تین کروڑ ہے) کا ہونا شامل ہیں۔ ان شرائط کو پورا کرنے میں یونیورسٹی انتظامیہ ابھی تک ناکام نظر آتی ہے جس کے نتائج طلبہ کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

2015 بیچ کے ایک طالب علم ابرار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہ مسائل کافی سالوں سے چلے آرہے ہیں۔ جون 2016 میں انجینئرنگ کے طلبہ نے اپنے ڈین کو درخواست لکھی تھی جس میں اپنے مسائل حل کروانے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر اس پر کچھ بھی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس کے بعد طلبہ احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ طلبہ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے یونیورسٹی کے صدر نے ملاقات کر کے انہیں یقین دہانی کرائی کہ آپ کے مسائل تین مہینوں میں حل ہو جائیں گے مگر اس کے بعد بھی ابھی تک یہ حالات ہیں۔ 2014 بیچ کی ایکریٹیڈیشن ہو گئی تھی اور ان کی ری ایکریٹیڈیشن چھے مہینے بعد ہوئی تھی۔ اب 2015 بیچ کی ری ایکریٹیڈیشن ساتھ مہینوں سے تاخیر کا شکار ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کمی کے حوالے سے ابرار نے بتایا کہ جو حکومت تعلیم میں اصلاحات کے دعوے کر کے بنی تھی، آج وہ تعلیم کے بجٹ میں کمی کر رہی ہے جو بہت افسوسناک ہے اور جس کے نتیجے میں 4/4 جی۔پی۔اے لینے والوں کا سکالرشپ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ، جس کو ہمارے مسائل حل کرنے چاہیے، کا رویہ بھی کافی افسوسناک ہے۔ یونیورسٹی کا نائب صدر اقدس نوید، جو کہ صدر جامعہ کی غیر موجودگی میں ایکٹنگ صدر تھا، کے پاس جب ہم اپنے مسائل پر بات کرنے کے لیے گئے تو بجائے اس کے کہ وہ ہمارے مسائل سنتا اور انہیں حل کرتا، اس نے کہا کہ جاؤ پہلے احتجاج کرو۔ جب فیکلٹی کے ڈین کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ میں آپ کو جوابدہ نہیں ہوں جاؤ میرے بڑوں سے بات کرو، اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو مجھے نکال دے۔ ابرار نے کہا کہ مجھے خود ایک دفعہ شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا اور اب بھی انتظامیہ کی جانب سے ہم دھمکیوں کا شکار ہیں۔

اسی طرح 2016 بیچ کے طالب علم محمد اویس نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کا ڈپارٹمنٹ 2014 سے موجود ہے اور چھے سال گزرنے کے باوجود پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ساتھ الحاق نہیں ہو سکا جو یونیورسٹی کے لیے انتہائی شرمناک ہے اور ان کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ یونیورسٹی میں سب سے زیادہ فیس یعنی ایک سمیسٹر کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے سول انجینئرنگ والے دیتے ہیں، اس کے باوجود یہ حالات ہیں۔ اویس کا کہنا تھا کہ ہمیں بار بار انتظامیہ کی جانب سے جھوٹی یقین دہانی کرا کے دھوکہ دیا جاتا ہے مگر اس دفعہ ہم یہ سوچ کر آئے ہیں کہ جب تک ہمارا پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ساتھ الحاق نہیں ہو گا، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اس موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس نے سول انجینئرنگ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس کا اس حوالے سے یہ مؤقف ہے کہ اس وقت پورے ملک کے طلبہ ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ جس میں فیسوں کا بے تحاشا اضافہ ایک بنیادی اور عام مسئلہ ہے۔ اس لیے سارے طلبہ کو بجائے اس کے کہ اپنی الگ الگ جدوجہد کریں، ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسلامک یونیورسٹی کی مثال ہی لے لیجئے، جس کی فیسوں میں بیس سے سو فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ ہاسٹلوں کی کمی ہے۔ نئی کمرہ جماعتوں کی تعمیر ضروری ہے، اوپر سے انتظامیہ کی بد معاشی۔ جب تک سارے طلبہ اپنے ان مسائل کے حل کیلئے مل کر نہیں لڑیں گے، تب تک وہ کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔

تین دن گزرنے کے بعد کل طلبہ کی طرف سے وقتی طور پر احتجاج کو التوا میں رکھا گیا، کیوں کہ طلبہ کی مستقل مزاجی کی وجہ سے انتظامیہ نے مزاکرات کی پیش کش کی ہے۔ جو طلبہ کی جزوی کامیابی تو ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کو مزاکرات کرنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن یہ مکمل کامیابی نہیں ہے، کیونکہ انتظامیہ ہمیشہ طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے مزاکرات کا ڈھونگ رچاتی ہے اور پھر انتقامی کارروائیوں کا استعمال کرتے ہوئے متحرک طلبہ پر حملے کرتے ہوئے خوف پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لیے ماضی میں استعمال کیے گئے ان حربوں سے سیکھتے ہوئے طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کو اپنے مطالبات کی کامیابی کے لیے دیگر طلبہ کے مطالبات کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک بڑی طاقت کے طور پر آگے بڑھنا ہوگا۔

One Comment

  1. Pingback: Progressive Youth Alliance – بولان میڈیکل کالج اور قوم پرستی کا المیہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.