|رپورٹ: عنایت ابدالی|
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی (گلگت کیمپس) کے طلبہ پچھلے ایک ہفتے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یونیورسٹی کے فنڈز میں کٹوتی کی گئی اور یونیورسٹی نے یک لخت سمسٹر فیسوں 50 فیصد اضافہ کردیا۔ اس اضافے نے طلبہ کے ہوش اڑا دیے۔ ایسی صورت حال میں انکے پاس احتجاج کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ تمام طلبہ کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اور کئی گھروں سے تو دو سے تین تک طلبہ بھی پڑھتے ہیں۔
احتجاج کے دوران بھی طلبہ کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ وہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور 30، 30 ہزار فیسیں ادا نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت میں کوئی فیکٹریاں یا دیگر کاروبار بھی موجود نہیں ہے کہ وہ خود کما کر یہ فیسیں ادا کر سکیں۔ طلبہ شدید غصے میں تھے اور انکی باتوں سے یہ واضح تھا کہ وہ پیچھے ننہیں ہٹیں گے کیونکہ انکے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔
اسی طرح قراقرم یوتھ فورم کے چیرمین تہذیب حسین نے کہا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھیں گے اور کسی دباؤ کا شکار نہیں ہونگے۔
دوسری جانب وائس چانسلر نے طلباوطالبات کی کلاسوں میں غیر حاضری کا نوٹس لیکر انتظامیہ کو طلبہ کی حاضری یقینی بنانے کے احکامات جاری کردیے ہیں اور کہا ہے کہ کلاسوں میں حاضر نہ ہونے والے طلبہ کے خلاف کارروائی کرینگے۔
پہلے احتجاج کیمپس کے اندر ہو رہا تھا مگر دھمکیوں کے بعد طلبہ کیمپس سے باہر نکلے اور دنیور اور گلگت کی رابطہ سڑک بند کرکے ایک ہفتے سے احتجاج میں موجود ہیں۔ احتجاج کو ختم کرنے کیلئے یونیورسٹی طلبہ کے اوپر دباو ڈال رہی ہے مگر طلبہ ہزاروں کی تعداد میں نکلتے ہیں اور پی ٹی آئی کی تعلیم کش پالیسوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ فی الحال محرم کی کی وجہ سے احتجاج کو روکا گیا ہے مگر 10 محرم کے بعد دوبارہ احتجاج شروع کیا جائے گا۔
مطالبات
1 – و زیر اعظم سکیم 2011 فیس معافی برائے ماسٹرز، ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
2 – فیسوں میں 40 سے 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، اسے فالفور واپس لیا جائے اور تحریری نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔
3 – ایچ ای سی کی طرف سے یونیورسٹی کے سالانہ بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے یونیورسٹی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان فوری طور پر قراقرم یونیورسٹی گلگت بلتستان کے لیے سپیشل گرانٹ کا اعلان کریں۔