|رپورٹ: پی وائی اے، فیصل آباد|
22 مئی 2019ء بروز بدھ صبح 9 بجے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے طلباء و طالبات نے فرشتہ زیادتی کیس پر احتجاج ریکارڈ کروایا۔ جس میں اغواکاروں سمیت SHO تھانہ اور ریاستی دلال میڈیا کے کردار پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور حکومت وقت سے سخت الفاظ میں معصوم فرشتہ اور اس کے لواحقین کے لیے انصاف کی اپیل کی گئی۔
یونیورسٹی گیٹ نمبر 6 سے 100 سے زائد طلبا و طالبات نے ”ظالمو جواب دو، فرشتہ کو انصاف دو“ کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے گیٹ نمبر 2 پر احتجاج کا اختتام کیا۔
طالبات نے SHO کے خلاف shame..shameکے نعرے بلند کئے جو نوجوانوں میں ریاستی اداروں کے لئے بڑھتی ہوئی بے اعتباری کا ثبوت ہیں۔
سابقہ فاٹا اور موجودہ الحاق شدہ علاقہ کے ضلع مہمند کا ایک خاندان جو ریاستی دہشتگردی سے تنگ آکر پاکستان کے دارلحکومت میں ہجرت کر جانے والے ایک خاندان کی بچی جس کی عمر 10 سال تھی جو آج سے ٹھیک 7 دن پہلے تھانہ چک شہزاد کی حدود سے اغوا کی گئی اور SHO تھانے یہ کہہ کر FIR درج کرنے سے انکار کر دیا کہ لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ ننھی فرشتہ اغوا کاروں کی جسمانی زیادتی کا نشانہ بنی اور اسی دوران اسکی موت بھی واقع ہوئی۔ ان درندہ نما انسانوں نے معصوم فرشتہ کی لاش کو بھی مسخ کیا۔ ان درندوں، ریاستی غفلت اور بے حسی کے خلاف بروز بدھ 22 مئی جی سی یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے احتجاج ریکارڈ کروایا۔
نوجوان بڑھتے ہوئے جرائم اور انکی روک تھام کے لئے ریاست کی نااہلی کے پیشِ نظر سماجی دباوبڑھانے میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کرنے کیلئے سرگرم نظر آتے ہیں۔ آج فرشتہ اور عابدہ کے ساتھ ہونے والا ظلم طالبات میں خوف کے بجائے غصہ کے جذبات اُبھارتا ہے۔ جی سی کے طلبا و طلبات نے ان واقعات کے معمول بن جانے پر اِسی غصے کا اظہار کیا اور مظلوم کو انصاف نہ ملنے تک اپنی کوششیں یونہی جاری رکھنے کے عزم پر احتجاج کا اختتام کیا۔