ملتان: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے مین گیٹ پر شعبہ آرٹس کے طلبہ کا کامیاب احتجاج، انتظامیہ کی مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس ملتان|

مورخہ 1اکتوبر2018 ء بروز سوموار کو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں شعبہ آرٹس، ڈگری بی – آرکیٹیکچر (B – Architecture) کے طلباء و طالبات نے یونیورسٹی گیٹ کے سامنے صبح 11:30 بجے سے لے کر دن 1:30 بجے تک اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کیا۔ دو گھنٹے شدید گرمی میں طلبا ء و طالبات نے یہ احتجاج جاری رکھا۔ احتجاج کے دوران سیکورٹی کی جانب سے طلبہ پر تشدد بھی کیا گیا۔ طالبات کو خاص طور پر بازووں سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی گئی مگر طلبہ ڈٹے رہے۔ بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ کے مطالبات ماننے کی یقین دہانی کے بعد ختم ہوا۔

احتجاجی طلبہ کا یہ کہنا تھا کہ 2012ء میں یونیورسٹی نے این او سی (NOC) لیے بغیر داخلے جاری کردیے تھے۔ جبکہ PCATP (Pakistan Council of Architects and Town Planners)سے جاری کیے گئے NOC کے بعد داخلے دیے جاتے ہیں۔ این او سی حاصل کرنے کیلئے یونیورسٹی کو پہلے ڈپارٹمنٹ کی فیکلٹی (جنکے پاس سند موجود ہو) لانی پڑتی ہے، اس کی بنیاد پر این او سی جاری ہوتا ہے۔ چونکہ اس ڈگری کے پروفیسر پاکستان میں بہت کم ہیں لحظہ انکی تنخواہیں زیادہ ہیں جس وجہ سے کوشش کی گئی کہ ایسے پروفیسروں کے ذریعے پڑھایا جائے جن کے پاس سند نہیں ہے۔ اس طریقے سے وہ سستے پڑتے ہیں۔ پیسے بچانے کے چکر میں ہوا یوں کہ PCATP نے 2013-14 کے داخلوں کی ڈگریوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور اسکے ساتھ ساتھ نئے داخلوں پر بھی پابندی لگا دی۔ اسی طرح یونیورسٹی پر 15لاکھ جرمانہ بھی لگا دیا۔ جب تک یونیورسٹی کی جانب سے یہ جرمانہ ادا نہیں کیا جاتا نئے داخلے بھی نہیں ہوں گے اور پرانے داخلوں کی ڈگریاں بھی بحال نہیں ہو نگی۔

طلبہ کے مطالبات درج ذیل ہیں:۔

1۔ نئی فیکلٹی لائی جائے (سب سے اہم مطالبہ یہ ہے)

2۔ انفراسٹکچر کی شدید کمی ہے لحظہ 3 سٹوڈیو، ایک لیب اور PCATP کی کتابیں مہیا کی جائیں

ان مطالبات میں پہلا مطالبہ (نئی فیکلٹی) سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔ چونکہ PCATP کی جانب سے NOC جاری کرنے کی شرط یہ ہے کہ پہلے 15 لاکھ جرمانہ ادا کیا جائے، اور جرمانہ صرف اس صورت میں ادا ہو سکتا ہے جب فیکلٹی لائی جائی گی۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ کئی پروفیسروں کی سی ویز (CVs) انتظامیہ کے پاس آئی ہیں مگر انہوں نے بہت لمبے عرصے سے کسی کو بھی نوکری پر نہیں رکھا۔ 
طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ کافی لمبے عرصے سے انتظامیہ کو درخواستیں دیتے آرہے ہیں مگر آج تک انکی نہیں سنی گئی۔ انہیں ہمیشہ دفتر کے باہر سے ہی بھگا دیا جاتا تھا۔لحظہ اس بار انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک بڑا احتجاج کیا جائے۔ بالآخر انہوں نے یونیورسٹی گیٹ کے سامنے دو گھنٹے تک احتجاج کیا۔ انکا کہنا تھا کہ آج ہمیں اپنی طاقت کا احساس ہوا ہے۔ آج احتجاج کے بعد ہمیں ٹھنڈے اے سی والے کمروں میں بڑی عزت و احترام کے ساتھ لے جایا گیا اور ہمیں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ہمارے تمام تر مطالبات پر اسی ہفتے سے عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔ انتظامیہ کی جانب سے ہمیں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اسی ہفتے سے اسسٹنٹ پروفیسروں کے انٹرویو شروع کر دیے جائیں گے۔ اور اگر انکے مطالبات پر عمل درآمد شروع نہ ہوا تو وہ سوموار کے دن پھر احتجاج کا رستہ اپنائیں گے۔
یہ یقیناً طلبہ کی جراتمندانہ جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اور اگر طلبہ مستقبل میں بھی متحد رہتے ہیں تو یقیناً یونیورسٹی انتظامیہ کو انکے مطالبات ماننا پڑیں گے۔
پروگریسیو یوتھ الائنس طلبہ کے تمام تر مطالبات کو بالکل جائز سمجھتی ہے اور انکی اس جدوجہد میں ان کا ہر قسم کا ساتھ دینے کا اعلان کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ اتحاد (نہ صرف ایک ڈپارٹمنٹ یا ایک یونیورسٹی بلکہ پورے ملک میں) ہی آج مہنگی ترین فیسوں سے لے کر انتظامیہ کی غنڈہ گردی اور طالبات کے حراساں کیے جانے سے لے کر ہاسٹل کے مسائل تک سب مسائل کا مستقل حل ہے۔ آج پورے ملک کے طلبہ کو ایک ہو کر ان سب مسائل کے خلاف لڑنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہی مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ یونین بحال کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.