|رپورٹ:پروگریسو یوتھ الائنس، مٹھی|
کرونا وباء کی صورتحال کے پیش نظر جہاں ملکی سطح پر مختلف یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا وہاں سندھ کے اندر بھی 31 مئی کے بعد سب یونیورسٹیوں نے اسی طریقے کو اپنانا شروع کردیا ہے۔اس عمل سے سندھ کی دیہی آبادی سے طلبہ کی اکثریت بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔تھرپارکر ضلع سے کثیر تعداد میں طلبہ حیدردآباد اور کراچی سمیت مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بڑی اکثریت عام نیٹ ورک کی سہولت سے بھی محروم ہے۔
اس حوالے سے پی وائی اے مٹھی کی جانب سے بروز جمعہ احتجاجی ریلی و مظاہرہ کیا گیا جس میں سندھ یونیورسٹی،مہران یونیورسٹی،لمس،لیاری یونیورسٹی،زرعی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی سمیت دیگر کئی یونیورسٹیوں سے طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔ہائی اسکول گراؤنڈ سے پریس کلب تک ریلی کے بعد مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سندھ یونیورسٹی کے طالب علم بھیشم خاکی نے کہا کہ جہاں ایک طرف معاشی بحران کی شدت نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے وہیں آن لائن کلاسز کا اجراء طلبہ و والدین کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔اس کے ساتھ فیسوں کی مانگ بھی کی جا رہی جو کہ ایسے وقت میں طلبہ کے بنیادی حقوق سے کھلے عام کھلواڑ کے مترادف ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جب تک حالات نارمل نہیں ہو جاتے سیمسٹر بریک دیا جائے۔اداروں میں طلبہ کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے طلبہ یونین کی بحالی واحد حل ہے۔
لیاری یونیورسٹی سے روی مالہی نے انٹرنیٹ کی سہولیات کے ناپید ہونے اور اس وجہ سے درپیش مسائل کے حوالے سے بات کی۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں اور تعلیم کے نام پہ مذاق ہو رہا ہے اور دوسری طرف اس طریقہ کار سے طالبات کو ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس لڑائی کو اجتمائی طور لڑنے کی ضرورت ہے۔
ان مقررین کے علاوہ مہران یونیورسٹی سے حاکم سنگھ،لیاری یونیورسٹی سے امر باکڑ،زرعی یونیورسٹی سے ارون درزی اور دیگر طلبہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مطالبات پورے ہونے تک ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر کیمپئن کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں پی وائی اے کے بینر تلے رابطہ کاری جاری رکھنے کا عہد کیا گیا اور ضلع تھرپارکر میں پہلے پی واے اے کے یونٹ کی تشکیل کی گئی۔