ملتان: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا اعلان

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،ملتان|

سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں، طلبہ اور کسانوں کے کندھوں پر ڈالا جارہا ہے۔ مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور لاعلاجی سمیت دیگر مسائل میں عمومی طور پر اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر خاص کر کرونا وبا کے بعد یہ عمل شدید تر ہوا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں ہورہی ہیں، روزگار کے مواقع ناپید ہورہے ہیں۔اور طلبہ کو ان مسائل کے خلاف متحد ہونے سے روکنے کیلئے جبر اور غنڈہ گردی کو مزید ہوا دی جارہی ہے۔ آئے روز یونیورسٹیوں میں غنڈہ گردی کے واقعات کا واحد مقصد یہ ہے کہ طلبہ کو حقیقی مسائل سے دور رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی زوال کے سبب سماجی گراوٹ بھی بڑھ رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ریپ اور جنسی ہراسانی جیسی غلاظتیں بڑھتی جارہی ہیں۔

سماج کی عمومی صورتحال کی طرح بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان میں بھی یہ تضادات شدید تر ہوتے جارہے ہیں، ہر سال فیسوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کرونا وباکے دوران لوگوں پر دیو ہیکل معاشی دباؤ کے عرصے میں بھی اس لوٹ مار کو جاری رکھا گیا۔ایک تو طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں ہاسٹلز بہت زیادہ کم ہیں اور دوسری طرف ہاسٹل کے واجبات میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ اور ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ یونیوورسٹی میں ہراسانی کا مسئلہ شدت کے ساتھ موجود ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں متعدد جنسی ہراسانی اور ریپ کے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں خود اساتذہ اور انتظامیہ کے پالتو غنڈے ملوث ہوتے ہیں مگر عہدوں کی طاقت کے استعمال سے ان واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔

مگر ہراسانی کا مسئلہ ان چند ایک رپورٹ ہونے والے کیسز کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ شدید ہے، کلاس رومز سے لے کر بسوں اور کینٹینوں تک طالبات کی ہراسانی ایک معمول کی بات ہے اور اس غلیظ فعل کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہوئے انتظامیہ اور ان کی پالتو تنظیموں کے غنڈے بڑھ چڑھ کر سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ وہیں ایک تو نمبروں کا خوف دوسرا بدنامی کا خوف طالبات کو اسےخاموشی سے سہنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مگر یہ ہراسانی کا معاملہ نہ صرف طالبات تک محدود ہے اور نہ ہی صرف جنسی ہراسانی تک محدود ہے بلکہ طاقت کے زور پر طلبہ کو ہراساں کرنا اور اپنی بدمعاشی کی دھاک بیٹھانا بھی غنڈہ گرد تنظیموں، کونسلوں اور انتظامیہ و سیکیورٹی کے عملے کا معمول بن چکا ہے۔ اسی طرح اساتذہ کی جانب سے اپنی ناجائز خواہشات پوری کروانے کیلئے طلبہ کو ذہنی طور پر ہراساں کرنا بھی معمول ہے۔

اس تمام تر ہراسانی و جبر کے خلاف طلبہ کو اکٹھے ہونے سے روکنے اور ان پر خوف قائم رکھنے کیلیے انتظامیہ کی جانب سے کیمپس کو جیل خانے میں بدلنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کینٹینوں پر پچیس سے زائد کرسیاں رکھنے پر پابندی لگائی گئی، اس کے بعد بغیر سٹوڈنٹس کارڈ کے داخلے اور دیگر ڈیپارٹمنٹس میں طلبہ کے آنے جانے پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ مگر تمام غنڈہ گرد عناصر یونیورسٹی انتظامیہ کی پشت پناہی میں کھلے عام ہر جگہ دندناتے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح طلبہ کو متحد ہونے سے روکنے کیلیے اور طلبہ سیاست کو بدنام کرنے کیلیے تنظیموں کے غنڈوں کی جانب سے اسلحے کی نمائش بالکل عام ہے، وقفے وقفے سے ایم ایس ایف، پی ایس ایف، آئی ایس ایف، جمعیت اور کونسلوں کے مابین لڑائیاں بھی معمول بن چکی ہیں۔ ایک اور مسئلہ کینٹینوں کے نرخوں اور کھانے کے معیار کا ہے، آسمان کو چھوتی قیمتوں کے مقابلے میں کھانے کا معیار شدید برا ہے جو طلبہ کیلئے صحت کے مسائل کو بڑھا رہا ہے۔ اسی طرح بسوں کی تعداد بھی طلبہ کی تعداد کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

مندرجہ بالا تمام مسائل اور بیسیوں دیگر مسائل کے خلاف انتظامیہ کی طرف سے کسی اقدام کی توقع رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے طلبہ کو خود ان تمام مسائل کے خلاف منظم ہونا ہوگا۔ مثلاً جب ہراسانی کے مسئلے پر بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تو موجود ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کمیٹیوں میں وہی لوگ ہیں جو خود طلبہ کو ہراساں کرتے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کمیٹیوں کی بجائے طلبہ پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو طلبہ کے اپنے ووٹوں سے منتخب شدہ ہوں اور طلبہ کے آگے جوابدہ ہوں۔

اسی طرح کینٹینوں کے ریٹس کے تعین کے معاملے میں بھی یہ بات واضح ہے کہ لاکھوں روپے مہینے پر کینٹینوں کے ٹھیکے دیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ لاکھوں روپے مہنگے اور غیر معیاری کھانوں کی صورت میں طلبہ کو ہی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کی پالتو تنظیموں کی بھتہ خوری بھی جاری ہے۔کینٹینوں سے بھٹو اور مودودی کے نام پہ کھائے جانے والے کھانے کا بل بھی عام طلبہ کے کھاتے میں ہی آتا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایک طرف تو ان کاروباری ٹھیکوں کا خاتمہ کیا جائے دوسرا ان تنظیموں اور غنڈہ گرد عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ مگر اس کیلئے طلبہ کو ان کے خلاف میدان میں اترنا ہوگا جس کیلیے ضروری ہے طلبہ یونین بحال ہو اور تمام طلبہ انتخابات کے عمل میں حصہ لیتے ہوئے اپنے نمائندے منتخب کریں۔

اسی طرح فیسوں کے اضافے کو روکنے، ہاسٹلز اور بسوں کی تعداد میں اضافے اور دیگر تمام سہولیات کے حصول کیلئے طلبہ کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہونا ہوگا اور یہ صرف طلبہ یونین کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ یونین کے انتخابات سے طلبہ اپنی قیادت منتخب کریں گے جو فیسوں اور دیگر معاملات کے تمام فیصلوں میں شریک ہوگی جس کے باعث انتظامیہ کی یہ لوٹ مار رُک سکے گی اور طلبہ دوست اقدامات ہوسکیں گے۔

مندرجہ بالا بحث میں بیان کیے گئے تمام مسائل  کے گرد پروگریسو یوتھ الائنس نے 8 مارچ کو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اینٹی ہراسمنٹ مارچ کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد طلبہ کو ان مسائل کے گرد جوڑنا اور منظم کرنا ہے۔

ہم تمام طالبعلم ساتھیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ غنڈہ گردی، بدمعاشی، ہراسانی اور لوٹ مار کے خلاف جدوجہد میں ہمارا حصہ بنیں اور ایک ایسے پلیٹ فارم پر منظم ہوں جو نہ تو انتظامیہ کی گماشتگی پر معمور ہے اور نہ ہی کسی قسم کے طلبہ دشمن اقدامات میں شریک رہا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ صرف طلبہ اتحاد ہی وہ واحد قوت ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں اور نہ صرف ہر قسم کے جبر اور ناانصافی کو روکا جاسکتا ہے بلکہ مفت تعلیم جو طلبہ کا آئینی حق ہے، کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

طلبہ اتحاد زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.