|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
بالشویک انقلاب کی 102ویں سالگرہ کے موقع پر راولاکوٹ میں پی وائے اے کشمیر کے زیر اہتمام ’انقلاب روس اور آج کا عہد‘ کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کو چیئر صعیب نے کیا اور عبید ذوالفقار نے انقلاب روس اور موجودہ عہد میں اس کی اہمیت پرتفصیلی گفتگو کی۔ عبید نے انسانی تاریخ کے عظیم واقعہ کے اوپر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ انقلاب روس پوری دنیا کے محنت کش طبقے کی تاریخ کا درخشاں باب ہے جس نے عمل کے میدان میں یہ ثابت کیا کہ سماج کو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بغیر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ بالشویک پارٹی کی قیادت میں مارکسی نظریات کے خطوط پر استوارجدوجہد کے ذریعے روس کے محنت کشوں اور کسانوں نے صدیوں پرانی زار شاہی کا خاتمہ کرتے ہوئے وہاں اکثریتی طبقے کی حاکمیت قائم کی۔ انقلاب نے نجی ملکیت کی تمام اشکال کا خاتمہ کرتے ہوئے ذرائع پیداوار کے اجتماعی کنٹرول کے ذریعے منصوبہ بند معیشت کی بنیاد رکھی۔ انقلاب سے پہلے کے روسی سماج کا خاکہ کھینچا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انقلاب سے پہلے روس آج کے پاکستان سے بھی کہیں زیادہ پسماندہ تھا۔
زار شاہی کے جبر و تسلط کے زیر سایہ غریب عوام کی حالت انتہائی دگرگوں تھی۔ سرمایہ دار اور جاگیردار اپنے مفادات کی خاطر زار روس کے وفادار تھے۔ کسانوں کی وسیع اکثریت زمین سے محروم تھی، ناخواندگی کی شرح 70 فیصد تھی، بنیادی انفراسٹرکچر انتہائی پسماندہ اور چند بڑے شہروں تک محدود تھا، خواتین بد ترین سماجی استحصال کا شکار تھیں، خاوند کے بیوی پر جبر کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اُنہیں ووٹ دینے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ انقلاب کے بعد تمام تر پرانی ریاستی مشینری کا خاتمہ کرتے ہوئے پورے سماج کو سوشلسٹ بنیادوں پر از سر نو تعمیر کیا گیا۔ تمام جاگیریں غریب کسانوں میں تقسیم کی گئیں، تمام وسائل بشمول صنعتیں، بینک اور دیگر مالیاتی اثاثے محنت کشوں کے اجتماعی کنٹرول میں لیے گئے۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کار پہلے سے کم کر کے 8 گھنٹے مقرر کیے گئے، ناخواندگی کا مکمل خاتمہ کیا گیا اور تعلیم ہر شخص کے لیے لازمی قرار پائی۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور صنعتی ترقی کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے محاذوں پر بھی بیش بہا کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ خواتین کو معاشی اور سماجی حقوق دیے گئے۔ اُ نہیں وہ مادی بنیادیں فراہم کی گئیں جن کی بنیاد پر خواتین سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ یہ تمام تر حاصلات منصوبہ بند معیشت ہی کی مرہون منت تھیں۔
جرمنی میں انقلاب کی ناکامی کی وجہ سے سویت یونین کی مزدور ریاست تنہا رہ گئی جس کے نتیجے میں سٹالنسٹ افسر شاہی کا جنم ہوا۔ سٹالنسٹ افسر شاہی کی طرف سے ’ایک ملک میں سوشلزم‘ جیسے رجعتی نظریے کے احیا کے ذریعے بالآخر سویت یونین کا انہدام ہوا۔ جس کی سب سے پہلے وضاحت بالشویک انقلاب کے عظیم قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے کر دی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ ممالک میں یہ جشن منایا جا رہا تھا کہ سرمایہ داری فتح یاب ہو چکی ہے، منڈی کی معیشت کو منصوبہ بند معیشت پر فتح حاصل ہو چکی ہے اور اب ازل تک سرمایہ داری کا ہی راج رہے گا۔ لیکن 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے سب کچھ بدل ڈالا۔ سرمایہ داروں کے دلال حکمرانوں نے بحران کا تمام تر ملبہ محنت کش طبقے پر گرایا، جس کے خلاف محنت کش طبقے کا شدیدردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ میں بڑی بڑی تحریکوں نے اور حالیہ دنوں میں ایکواڈور، چلی، لبنان اور دیگر ممالک میں چلنے والی محنت کش طبقے کی تحریکوں نے حکمران طبقے کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد پر مشتمل ان احتجاجوں میں نوجوان قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ نیو لبرل پالیسیوں، کٹوتیوں، مہنگائی اور دیگر معاشی و سماجی مسائل کے گرد کئی ریاستوں میں ملک گیر احتجاج ہوئے ہیں جو ریاستی مشینری کو جام کر چکے ہیں۔ لیکن واضح طور پر ہمیں ان تمام تحریکوں میں موضوعی عنصر کی کمی کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ ایک حقیقی مارکسی نظریات سے لیس بالشویک طرز کی پارٹی ہی اس موضوعی عنصر کی کمی کو پورا کرتے ہوئے ان تحریکوں کو درست سمت میں لے جاتے ہوئے اپنے منطقی انجام تک پہنچا سکتی تھی۔ آنے والے عرصے کے اندر سرمایہ داری کا بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا اور بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ہی ڈالا جائے گا جس کے خلاف ناگزیر طور پر محنت کش طبقہ میدان عمل میں اترے گا۔ آج کے عہد کا ہم مارکس وادیوں سے یہی تقاضہ ہے کہ ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کو تیز تر کیا جائے تاکہ آنے والے عرصے کے اندر ابھرنے والی کسی انقلابی تحریک میں شعوری مداخلت کے ذریعے یہاں سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھی جائے۔
اس کے بعد سوالات کی روشنی میں اور لوگوں نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ غفار، نعیم آکاش اور گلباز نے انقلاب روس کے دیگر اہم پہلووں پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد یاسر ارشاد نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے انقلاب کی تاریخی اہمیت کے ساتھ آج کے عہد کا خاصہ اور انقلاب کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ پروگرام کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔