|رپورٹ: عائشہ|
موجودہ حکومت کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے نتائج سے طلبہ بھی پریشان حال ہیں خاص طور پر وہ طلبہ جن کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے محنت کشوں کا روزگار سکڑ رہا ہے اور اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ میرا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ بڑی مشکل سے میرے والدین میری فیس ادا کرتے تھے اورمیری کتابوں کاخرچہ میری بہن کے ذمے تھا۔ مہنگائی کی وجہ سے فیسوں میں اضافہ، کتابیں مہنگی ہونااور پھر سب سے بڑا مسئلہ ٹر انسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کا ہے۔ بی ایس آنرز میں سمسٹر سسٹم کے تحت ہر چھ ماہ بعد نئی کتابیں خریدنی پڑتی ہیں جوکہ پچھلے سال کی نسبت کئی گنامہنگی ہیں۔ دکاندار پہلے سے سستی خریدی ہوئی کتابوں کو دوگنی قیمت پر بیچ کر منافع کماتے ہیں۔ پھر طالبات اپنے کالج کی لائبریری میں کتابیں لینے جا تیں ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کالج کی لائبریری میں نصاب کے علاوہ ہر قسم کی کتاب موجود ہے اور اس قسم کی کتابیں بھی ہیں جن کی کالج میں کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ غریب طلبہ کو مجبوراً یہ مہنگی کتابیں خریدنی پڑتی ہیں۔ ان کا خرچہ پورا کرنے کے لیے گھر کے تمام افراد اور والدین مزدوری کرنے لگ جا تے ہیں، لیکن پھر بھی اتنی مہنگائی ہے کہ خرچہ نہیں اُٹھایا جاتا، ضروریات پوری نہیں ہوتی۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے کرائے میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کرایہ اتنا ہے کہ طلبہ کسی قسم کی کالج یا سکول کے لیے لگی وین کا کرایہ افورڈ نہیں کرسکتے، اب تولوکل بھی نہیں آسکتے کیونکہ اس کا کرایہ جہاں پچاس روپے تھا اب سو روپے ہو گیا ہے جبکہ والدین کی مزدوری پہلے سے کم ہو گئی ہے۔ اس سب صورتِ حال کی بنا پر طالبات گھر بیٹھ جا تیں ہیں۔ کیاگورنمنٹ کالج اس لیے بنائے جا تے ہیں؟ اگر ایک غریب کے بچے کو سرکاری کالج میں بھی پڑھنا نصیب نہ ہو تو وہ کیا کرے گا؟
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری بنیادی ضروریات فراہم کرے، ہمیں کتابیں فراہم کی جائیں اور گورنمنٹ کی طرف سے فری ٹرانسپورٹ دی جائے یا کم از کم اسکے کرائے اتنے ہوں کہ ایک غریب گھر سے تعلق رکھنے والا طالبِ علم بھی اسے ادا کر سکے۔