اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور: طلبہ کے مستقبل داؤ پر، انفراسٹرکچر اور تعلیمی معیار جواب دے چکا ہے

|تحریر: کاشف چانڈیو|

 

کچھ عرصہ قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا شمار پاکستان کی بہترین جامعات میں ہوتا تھا۔ پچھلے دو سال میں طلبہ کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک سمیسٹر میں طلبہ کی تعداد 40 سے بڑھ کر 100 ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے میڈیا کی زینت بننے کیلئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے جن کا ذکر کیا جائے تو اوراق بھرے جا سکتے ہیں۔بلاشبہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو داخلہ ملنا چاہیے اور تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملنا چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وسائل محدود ہیں۔ روز اخبارات و نیوز چینلز پر شہہ سرخیوں میں اسلامیہ یونیورسٹی کی خبریں شامل ہونے لگیں جو کہ صاف ظاہر ہے بلامعاوضہ نہیں ہوتیں۔ یونیورسٹی کے اخراجات میں بلاوجہ اضافہ کیا گیا۔ صاف ستھرے روڈز اکھاڑ کر نئے بنائے گئے۔ جہاں گھاس تھا وہاں ٹف ٹائل اور جہاں فرش تھا وہاں گھاس لگایا جانے لگا۔ اس سب کارستانی کا خمیازہ طلبہ کو بھگتنا پڑا۔ یہی پیسے طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کیے جا سکتے تھے۔

طلبہ کی تعداد کے حساب سے نئے ہاسٹل تعمیر کیے جا سکتے ہیں، کمرہ ہائے جماعت بڑھائے جا سکتے ہیں۔ جب 16 ہزار سے بڑھ کر تعداد 50 ہزار کو بھی عبور کر گئی اور انفراسٹرکچر ساتھ دینا چھوڑ گیا تو فیسوں میں پچاس فیصد کے لگ بھگ اضافہ کر دیا گیا جس کے خلاف طلبہ نے مزاحمت بھی دکھائی مگر اتحاد اور لیڈر شپ کے فقدان کے باعث ناکام ہوگئے۔

 

جھوٹوں کا پینڈورا باکس!

 

فیسیں تقریباً دوگنا کر دی گئیں لیکن میڈیا کسی طالب علم کی بات سننے کو تیار نہیں تھا کیونکہ وائس چانسلر نے آتے ہی صحافیوں کے بچوں کے لیے سکالرشپس کا اعلان کر دیا تھا۔ میڈیا میں یونیورسٹی کے معیار کا ڈھونگ رچا کر جو داخلہ مہم چلائی گئی اس کی چند ایک مثالیں آپ کے پیش نظر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز نے دعوی کیا کہ یونیورسٹی میں 60 ہزار طلبہ کی گنجائش موجود ہے۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر چند تصاویر سامنے سے گزریں تو دیکھا کہ بچے کمپیوٹر سائنس کی کلاس گراؤنڈ میں بیٹھ کے لے رہے ہیں۔

نئے آنے والے سب طلبہ کا یہی شکوہ تھا کہ کلاس روم نہیں مل رہا۔ ایک محترم استاد سے معلوم ہوا کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے پاس لگ بھگ تین 3 کمرے ہیں اور 40 سمیسٹرز۔ ایسے میں کسی بھی عقل و شعور والے انسان کو سمجھ آ سکتی کہ ممکن ہی نہیں کلاسسز کو ارینج کرنا۔ یہی حال باقی سب ڈیپارٹمنٹس کا ہے کہ جہاں رات 8 بجے تک بھی کلاسز ہورہی ہیں اور سبجیکٹ کے کریڈٹ آورز ہی پورے نہیں کیے جارہے ہیں۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بنا کسی غرض و پریشانی آتے ہیں، دفتر میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں اور بنا اجازت کسی طالب علم سے ملنا تو دور بات بھی نہیں کرتے۔ لیکن وائس چانسلر کو ’سب بہترین‘ کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ جو آئے ہیں وہ سنبھالے نہیں جارہے لیکن سیکشن بی کے نام پہ داخلے دوبارہ شروع ہوچکے ہیں۔ بسوں میں جگہ کھڑے ہو کر جانے کی بھی نہیں ملتی۔ یہ ہے یونیورسٹی کے معیار اور میرٹ کی داستاں جہاں نہ کلاس ہوتی ہے نا کوئی پوچھنے والا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ میڈیا کو پیڈ پروگرامز کے ذریعے اختیار میں کر لیا گیا ہے اور کچھ صحافی اطہر محبوب کو فرشتہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔

 

فیصلہ سازی میں طلبہ کی شمولیت ناگزیر ہے!

 

ان سب مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اداروں کے اندر تمام فیصلے وہ لوگ کرتے ہیں جو تعلیم کے نام پہ کاروبار کر رہے ہیں۔تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بہتر جانتے ہیں کہ وہاں کون سی سہولیات کا فقدان ہے۔ہاسٹلوں میں رہنے والے طلبہ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کتنے نئے ہاسٹل تعمیر ہونے چاہیئں۔طلبہ ادارے میں کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کا درست فیصلہ کر سکتے ہیں نہ کہ وہ لوگ جنہوں نے کینٹینوں کے ٹھیکے لے رکھے ہیں اور صبح شام طلبہ کو لوٹ رہے ہیں۔اداروں کی تمام تر فیصلہ سازی میں طلبہ کی شرکت کو طلبہ یونین کے ذریعے ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ طلبہ یونین ہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں طلبہ کے منتخب شدہ نمائندے ان کے حقوق کی جدوجہد کر سکتے ہیں اور اداروں کو طلبہ کے لیے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔لیکن طلبہ یونین کی بحالی کے لیے پورے پاکستان میں طلبہ کو متحد ہو کر سیاسی لڑائی لڑنا پڑے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.