پاکستان: طلبہ تحریک۔۔۔ انقلابی سفر کا آغاز!

|تحریر: سنگر خان |

4 جنوری 2021ء کو وزیرِ تعلیم شفقت محمود کے تعلیمی ادارے کھولنے کے اعلان کے بعد ملک کی لگ بھگ تمام یونیورسٹیوں نے آن کیمپس امتحانات کا اعلان کردیا تھا۔ اس اعلان کے فوراً بعد طلبہ نے سوشل میڈیا پر تعلیمی اداروں کے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کردی۔ خود رو انداز میں ناصرف مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کے واٹس ایپ گروپس بننا شروع ہوگئے بلکہ طلبہ اپنے زورِ بازو پہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے خلاف احتجاجوں پر اُتر آئے۔

آن کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاجوں کے سلسلے کا آغاز 18 جنوری کو ہوا، جس میں نمل یونیورسٹی کے طلبہ کا آئی جے پی روڈ پر دھرنا، ایریڈ یونیورسٹی کے طلبہ کا مری روڈ پر دھرنا اور واہ یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاج شامل تھا۔ نمل یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ اپنے مطالبات کے لئے پہلے اپنے ادارے کے سامنے اکھٹے ہوئے مگر انتظامیہ کی طرف سے مسلسل تاخیری حربوں اور طلبہ قیادت کے محصور ہونے کے بعد طلبہ مجبوراً مین آئی جے پی روڈ کی طرف بڑھے اور وہاں دھرنا دیا۔ جس کے بعد رات کے اندھیرے میں پولیس نے لاٹھی چارج کے ذریعے احتجاجی دھرنے کو متشر کرتے ہوئے 8 طالب علموں کو گرفتار کیا۔ ایریڈ کے طلبہ نے مری روڈ بند کر دیا تھا جس پر انتظامیہ نے ایک روز کی مُہلت مانگی تو طلبہ نے پر امن طریقے سے احتجاج کو ختم کر دیا۔ اسی روز لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے آن کیمپس امتحانات کے خلاف دھرنا دیا، جس پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا۔

اس کے اگلے روز بھی مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے آن کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرائے جس میں پشاور یونیورسٹی کا احتجاج نمایاں ہے۔ 22 جنوری کو لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے ایک بار پھر گورنر ہاؤس کا رخ کیا اور وہاں احتجاجی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ 23 جنوری کو اسلام آباد اور ملتان کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے پر امن احتجاج ریکارڈ کرائے۔ 24 جنوری کو پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاج جاری رہا اور باقی شہروں میں بھی طلبہ احتجاج کرتے رہے۔ 25 جنوری کو ڈیرہ غازی خان میں مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبہ نے احتجاج کیا جو بعد میں ایک دھرنے کی صورت اختیار کرگیا اور دو روز تک جاری رہا۔ اسی روز بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی(UMT) لاہور کے طلبہ بھی سڑکوں پر نکلے۔UMT کے طلبہ کے ا حتجاج پر پولیس کے جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا جس کے بعد طلبہ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے یونیورسٹی کے اندر داخل ہوگئے اور آن لائن امتحانات کے نوٹیفکیشن حاصل کرنے کے بعد اپنی جیت کا جشن مناتے ہوئے گھروں کو لوٹے اور نئے جذبوں سے سرشار ان طلبہ نے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب(UCP)کے طلبہ کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہونے کا اعلان بھی کیا۔ 26 جنوری کو ایک بار پھر اسلام آباد میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے ایچ ای سی کے سامنے پرامن احتجاج ریکارڈ کرایا۔ملتان میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ملحقہ 40 کالجوں کے طلبہ نے کامیاب احتجاج کیا۔ لاہور میں یو سی پی اور فیصل آباد میں جی سی یو کے طلبہ بھی اسی روز سراپا احتجاج رہے۔

یو سی پی لاہور اور جی سی یو فیصل آباد کے طلبہ پر پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے بدترین لاٹھی چارج کیا گیا جس کے باعث درجنوں طلبہ زخمی ہوئے جن میں کئی کی حالت تشویشناک ہے، اور یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے 37 طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ ان 37گرفتار ہونے والے طلبہ میں سے کچھ کا تعلق یو ایم ٹی سے تھا، یہ طلبہ کی باہمی یکجہتی کی عظیم مثال ہے۔ یو سی پی کا احتجاج کچھ شر پسند عناصر کی موجودگی اور طلبہ کے غیر منظم ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے انتقامی کاروائیاں شروع کی گئیں اور اب تک 19 طلبہ کو یونیورسٹی کی طرف سے ان کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کے نوٹیفیکیشن موصول ہو چکے ہیں۔

مندرجہ بالا احتجاجوں کے علاوہ بھی ملک کے لگ بھگ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ نے کہیں سوشل میڈیا پر تو کہیں فزیکل احتجاج ریکارڈ کروائے، حتیٰ کہ تا دم تحریر مختلف شہروں میں احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔

تحریک کا پسِ منظر

ضیا الحق کی آمریت میں طلبہ سے ان کا نمائندہ ادارہ طلبہ یونین چھن جانے کے بعد ہر روز طلبہ کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا،تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا، ہراسانی کے مسائل دن بدن بڑھتے رہے، ڈگریاں محض تعلیمی اخراجات کی رسیدوں کی شکل اختیار کرتی گئیں اور روزگار کی ضمانت چھین لی گئی۔یہ تمام تر مسائل طلبہ کے شعور میں مقداری و معیاری تبدیلیوں کا باعث بنتے رہے۔

ان تمام تر مسائل کے خلاف طلبہ کے ذہنوں میں غم و غصہ شدت اختیار کرتا رہا جس کے خلاف وقتاً فوقتاً طلبہ سڑکوں پر بھی نکلتے رہے۔ 2017 میں مشال خان کے بہیمانہ قتل کے بعد پورے ملک میں ہونے والے طلبہ کے احتجاجوں سے لے کر مختلف مسائل پر کشمیر سے لے کر کراچی تک کئی تعلیمی اداروں میں ہونے والے ان گنت احتجاجوں کی صورت میں ہمیں طلبہ کے اس غصے کا اظہار دیکھنے کو ملا۔ مگر طلبہ کی موجودہ تحریک ماضی کے احتجاجوں سے معیاری طور پر مختلف ہے۔ اس تحریک کے پھٹنے سے پہلے بھی پروگریسو یوتھ الائنس واضح طور پر یہ کہتا رہا ہے کہ مقداری تبدیلیاں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں اور ایک معیاری جست لازم ہو گئی ہے، کوئی بھی چھوٹا یا بڑا واقعہ طلبہ تحریک کے پھٹنے میں عمل انگیز کا کردار ادا کر سکتا ہے۔طلبہ تحریک میں آن کیمپس امتحانات کے فیصلے نے عمل انگیز کا کام کیا اور پورے ملک کے طلبہ کو احتجاجوں کا رُخ کرنے پر مجبور کردیا۔

اس سے پہلے لاک ڈاؤن میں بھی بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کے خلاف ملک گیر سطح پر طلبہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے اور کچھ ایک شہروں میں فیزیکل احتجاج کیے تھے مگر تب لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاملات موجودہ سطح پر نہیں جاسکے تھے۔

آن کیمپس امتحانات کیوں نہیں؟

پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں طلبہ کی اکثریت کو آج کے جدید دور میں بھی ٹیکنالوجی تک رسائی میسر نہیں۔طلبہ کی اکثریت کیلئے لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز آج بھی ایک عیاشی کا درجہ رکھتے ہیں۔بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت آج بھی بے شمار علاقوں میں ناپید ہے اور پسماندہ علاقوں میں 14 گھنٹوں سے بھی زیادہ لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے۔اس کے علاوہ تعلیمی ادارے بھی ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہیں۔ اساتذہ کی اکثریت ٹیکنالوجی سے ناواقف ہے۔ان تمام حالات کے باوجود طلبہ کو آن لائن پڑھایا گیا،سائنس کے عملی مضامین کو بھی آن لائن پڑھایا گیا جن کو پریکٹیکل کے بغیر سمجھنا نا ممکن ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں ورچوئل لیبارٹری موجود نہ ہونے کی صورت میں امتحانات کی تیاری کیلئے لازمی مواد طلبہ کو میسر نہ ہو سکا۔اس کے علاوہ طلبہ سے اس سارے دورانیے میں مکمل فیس لی گئی اور تعلیم کے کاروبار سے کروڑوں روپے چھاپے گئے۔کیونکہ اس سارے آن لائن پڑھانے کے ڈرامے کا حقیقی مقصد طلبہ کی بھلائی نہیں بلکہ منافع کمانا تھا۔ سو جو پڑھایا گیا اتنا ناقص تھا کہ ملک کے تمام اداروں کے طلبہ نے اس پر سوالات اٹھائے اور آن لائن کلاسز کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ جب آن لائن ناقص تعلیم دی گئی ہے تو امتحانات بھی آن لائن لیے جائیں یا پھر آن کیمپس کلاسز لے کر آن کیمپس امتحانات لیے جائیں۔

یہاں پر ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ طلبہ کے مستقبل کی فکر کرنے کا دکھاوا کرنے والے اداروں یا پھر حکومت کو اتنی طلبہ کی فکر تھی تو پورے ایک سال میں ورچوئل لائبریریاں و لیبارٹریاں تو دور ایک معیاری سا لرننگ منیجمینٹ سسٹم (LMS) تک ہی کیوں نہیں متعارف کرا سکے؟ درحقیقت یہ ان تعلیم دشمن اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور اس سارے عرصے میں اس تعلیمی مافیا نے IT کے نام پہ کروڑوں روپے ہضم کیے ہیں۔

ریاست کا کردار

ریاست کے سوال پر پی وائی اے کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا محافظ اور نمائندہ ادارہ ہے۔ اس تحریک کے دوران بھی ریاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوا اور واضح طور پر ریاست سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے نظر آئی۔جہاں ایک طرف ریاستی اداروں کی جانب سے نہتے طلبہ پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور انہیں گرفتار کیا گیا تو وہیں دوسری طرف تحریک کے آغاز سے ہی اپنی پالتو طلبہ دشمن تنظیم جمعیت کو اس تحریک کو زائل کرنے کا مکروہ کردار سونپاگیا۔ جس نے تحریک کے ہر موڑ پر طلبہ کے ساتھ غداری کرتے ہوئے مصنوعی طریقے سے قیادت کے طور پر انتظامیہ سے مذاکرات کیے تاکہ کسی طرح اس تحریک کو ختم کیا جا سکے اور طلبہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ اس کے علاوہ اس طلبہ دشمن تنظیم نے ریاستی اداروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر تحریک کی نامیاتی قیادت کو کمزور کرنے کی کوششیں بھی کیں،جس میں وہ مکمل طور پر ناکام رہی۔

مختصراً اس تحریک کو کمزور یا ختم کرنے کیلئے سول ایڈمنسٹریشن، یونیورسٹی مالکان، پولیس اور ان سب کی بی ٹیم جمعیت نے ہر موڑ پر طلبہ دشمن اتحاد قائم رکھا اور طلبہ دشمن کردار ادا کیا۔

خودرو تحریک کی محدودیت

ملک گیر سطح پر ان تمام تر احتجاجوں میں آن لائن امتحانات کے مطالبے کے علاوہ ایک اور پہلو بھی مشترک ہے، وہ یہ کہ،یہ تمام تر احتجاج خودرو نوعیت کے تھے۔ان تمام تر احتجاجوں کو منظم کرنے میں کسی روایتی سیاسی تنظیم کا کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ان تنظیموں نے اس تحریک کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔

طلبہ نے اپنے بلبوتے پر بغیر کسی سیاسی تنظیم کے ان احتجاجوں کو منظم کیا،اداروں کی سطح پر کمیٹیاں بنائیں اور ان کمیٹیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑاجو کہ طلبہ سیاست میں ایک اہم پیش رفت ہے۔

ان تمام مثبت پہلوؤں کے باوجود بھی خودرو تحریکوں کی اپنی محدودیت ہوتی ہے۔اگر ہم اسی تحریک کو غور سے دیکھیں تو یہ تحریک ایک مخصوص مطالبے کے گرد کھڑی رہی، باوجود اس کے کہ اس تحریک میں گنجائش موجود تھی کہ اس تحریک کو طلبہ کے دیگر مسائل خاص طور پر طلبہ یونینز کی بحالی کی جدوجہد تک پھیلایا جاسکتا تھا، مگر قیادت کے فقدان کی وجہ سے یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکی۔

یہاں طلبہ کی نمائندہ سیاسی تنظیم کی اہمیت بھی بڑھ کر سامنے آتی ہے کہ طلبہ کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو سائنسی بنیادوں پر حالات کا تناظر تیار کرے اور اسی تناظر کی بنیاد پر تحریک کے اغراض و مقاصداور حکمتِ عملی کا تعین کرتے ہوئے جدوجہد کو آگے لے کر بڑھ سکے۔

یہاں یہ بات تو واضح ہے کہ یہ تحریک محض آن کیمپس امتحانات کی وجہ سے ہی نہیں بنی، بلکہ اس کے برعکس ماضی سے چلے آرہے طلبہ کے مسائل کے نتیجے میں طلبہ کے اندر جمع ہونے والے غم و غصّے کا ناگزیر نتیجہ تھی، جس نے آن کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاجوں کی صورت میں اپنا اظہار کیا۔ یہاں طلبہ کی ایک سیاسی تنظیم ہی اس تحریک کو احسن طریقے سے طلبہ کے دیگر مسائل کے ساتھ جوڑ سکتی تھی جن میں بڑھتی ہوئی فیسوں، ہاسٹلز، ٹرانسپورٹ، طلبہ یونینز پر عائد پابندی، ہراسانی، بیروزگاری اور نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔

طلبہ نے کیا حاصل کیا؟

اس تحریک میں شامل کئی طلبہ نے سیاسی لڑائی لڑ کر اپنے اپنے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو طلبہ کی قوت کے آگے ہار ماننے پر مجبور کیا اور ان سے اپنے مطالبات منوائے ہیں۔ ان میں یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، غازی یونیورسٹی، نمل یونیورسٹی، ایرڈ یونیورسٹی، ایمرسن کالج سمیت بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ملحقہ چالیس کالجز، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے طلبہ کی جیت شامل ہے۔

طلبہ نے ماضی سے چلی آنے والی تمام طلبہ دشمن تنظیموں کو مسترد کیا اور اپنی کمیٹیاں بنائیں جو کہ طلبہ کے اندر متبادل تنظیم کی جستجو کا ثبوت ہے۔ اس تحریک سے طلبہ نے سیکھا کہ ان کے مسائل مشترک ہیں اور ان کے حریف متحد ہیں اور ان کا مقابلہ بھی طلبہ کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ہی ممکن ہے۔ طلبہ نے یہ بھی سیکھا کہ تعلیمی اداروں کے اصل سٹیک ہولڈرز طلبہ خود ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر تعلیمی اداروں میں کوئی فیصلہ لاگو نہیں کیا جاسکتا۔ یقیناً یہ تمام تر اسباق طلبہ سیاست بالخصوص طلبہ یونینز کی بحالی کی جدوجہد میں ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے۔

مستقبل کا لائحہ عمل

یہ تو ابھی ملک گیر طلبہ تحریک کے آغاز کا بھی آغاز ہے۔مستقبل قریب میں طلبہ کی بڑی بڑی تحریکیں ابھریں گی۔ اس تمام تر صورتحال میں طلبہ تنظیم کی ضرورت بڑھے گی، طلبہ کو اس وقت مزید توانائی کے ساتھ تنظیمی ڈھانچوں میں جڑنا ہوگا، ان کو اپنی نظریاتی و سیاسی تربیت کرنا ہوگی اور مستقبل قریب میں ابھرنے والی طلبہ تحریکوں کے لئے ایک لڑاکا قیادت تیار کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ ہر موڑ پر تحریک کے اندر چھپی این جی اوز اور جمعیت جیسی طلبہ دشمن قوتوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا تاکہ طلبہ تحریک کو ان کے ہاتھوں ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔چونکہ اس وقت پاکستان اور پوری دنیا میں طلبہ کے ساتھ ساتھ مزدور بھی دن بدن بڑھتے مسائل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔اسی لیے طلبہ کو آپس میں جڑنے کے ساتھ سا تھ مزدور تحریک کے ساتھ بھی جڑنا ہوگا۔طلبہ اور مزدوروں کے مسائل کی بنیادی وجہ اس موجودہ نظام کا معاشی ڈھانچہ ہے۔ سو طلبہ اور مزدوروں کو یکجا ہو کراس نظام کے خلاف لڑائی لڑنا ہوگی تاکہ اس منافعوں پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرتے ہوئے سوشلزم کی جانب بڑھا جا سکے جو ان کے مسائل کی مستقل نجات کا واحد راستہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.