کراچی: ”پیغام فیض“ مشاعرے کا کامیاب انعقاد، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی یونیورسٹی یونٹ|

 

13 فروری کو برصغیر کے عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے، جن کی نظمیں آج بھی ناانصافی اور جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت ہیں۔ اس موقع پر، 14 فروری کو صبح 11 بجے سے دوپہر 2 بجے تک، پروگریسو یوتھ الائنس (کراچی یونیورسٹی یونٹ) نے عظیم شاعر فیض احمد فیض کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے نظریات، روایات اور انقلابی شاعری کو کراچی یونیورسٹی کے طلبہ تک پہنچانے کے لیے ”پیغامِ فیض“ کے عنوان پر ایک مشاعرے کا انعقاد کیا۔ اس مشاعرے کی تقریب کا اہتمام کراچی یونیورسٹی کے شیخ زید گیٹ کے بالمقابل ریجنٹ بینکوئٹ میں ہوا۔

پی وائی اے کراچی یونیورسٹی یونٹ کے ساتھیوں کی فیض کی یاد میں ایسی شاندار تقریب منعقد کرنے کی یہ پہلی کاوش تھی۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ”پیغامِ فیض“ مشاعرے کی تیاریوں کے سلسلے میں کراچی یونیورسٹی میں پی وائی اے کے سیاسی کارکنوں نے بھرپور مہم چلائی اور مختلف شعبہ جات کے طلبہ میں فیض کے پیغام کے دعوتی پمفلٹ تقسیم کیے، کینٹینوں سے لے کر پوائنٹ بس سٹاپس اور کلاسوں تک اور نوٹس بورڈز اور یونیورسٹی کی دیوواروں پر ”پیغامِ فیض“ مشاعرے کے پوسٹر بھی بطور اعلان چسپاں کیے۔ فنڈ اکٹھا کرنے کی شاندار مہم کے ذریعے کیمپس میں طلبہ سے تقریباً 40 ہزار روپے اکٹھے کیے گئے، جس سے طلبہ کی لگن و دلچسپی اور ہم پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس (جامعہ کراچی یونٹ) کے ساتھیوں کو اس مشاعرے کے انعقاد میں شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مشاعرے کی تقریب کو سبوتاژ کرنے کے لیے پروگرام سے قبل آخری ہفتے کے روز آرٹس آڈیٹوریم کی بکنگ منسوخ کر دی، ساتھ ہی اس کے بعد کیمپس میں کسی دوسری جگہ مشاعرہ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ 14 فروری کو جمعیت جو کہ ایک غنڈہ گرد اور طلبہ دشمن تنظیم ہے، کو اسی دن اور وقت پر اپنی حیا ڈے ریلی کا اہتمام کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ یونیورسٹی میں خوف و ہراس کا ماحول بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، کراچی یونیورسٹی کے ساتھیوں کو بھی کیمپس کے رجعتی عناصر اور غنڈوں کے ہجوم کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان غنڈہ گرد مذہبی جنونیوں کو پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں پر حملے کی جرات اس لیے ہوئی کیونکہ انہیں یونیورسٹی کے سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کی مکمل آشیر باد حاصل تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی میں سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ خود طالبانائزیشن کو فروغ دے رہا ہے اور ساری انتظامیہ اس کھلواڑ میں ملوث ہے۔ دوسری طرف خود کو سیکولر اور لبرل کہنے والی پیپلز پارٹی کے سٹوڈنٹس ونگ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن نے بھی اس حملے میں ان مذہبی جنونیوں کی معاونت کی اور نشاندہی کرنے پر پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سندھ کی قیادت نے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں کے خلاف زہریلی مہم شروع کر دی۔ اس سے مارکس وادیوں کے اس نقطہ نظر کی درستگی بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو بائیں بازو کا کہنے والی یہ پیپلز پارٹی بھی تمام تر سیاسی افادیت کھو چکی ہیں اور رجعتی کردار اختیار کر چکی ہے۔

حملے سے خوفزدہ ہونے کی بجائے پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنوں کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے اور انہوں نے پہلے سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام تر رکاوٹوں اور دھمکیوں کے باوجود مقررہ تاریخ پر ہی فیض کی یاد میں ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد کیا۔

انقلابی شاعری اور ترقی پسند فن کو عوام الناس اور عام طلبہ تک پہنچانے کے لیے مشاعرے میں ترقی پسند شعراء کی بڑی تعداد کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ مختلف شہروں سے ملک کے نامور شعراء نے اس مشاعرے میں شرکت کی جن میں، واہ کینٹ سے مظہر حسین سید اور واہ کینٹ ہی سے اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعر اسامہ جمیل، لاہور سے خالد ندیم شانی اور تسنیم سید، اسلام آباد سے شعیب کیانی، ملتان سے سرفراز آرش، کراچی سے فریحہ نقوی، کاشف حسین غائر، ہدایت سائر، زرنگار عباس، سدرہ جذبات اور شاہ فہد شامل تھے۔

اس یادگار مشاعرے کی صدارت کراچی کے ممتاز اور قد آور شاعر میر احمد نوید نے کی۔ کامریڈ پارس جان نے مشاعرے کی نظامت کے فرائض سر انجام دیے اور اپنے اشعار پیش کر کے مشاعرے کا آغاز کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ، ان کی بغل بچہ اسلامی جمعیت طلبہ اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے بنائے گئے انتہائی خوف و ہراس کے ماحول میں بھی طلبہ اور دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت فیض احمد فیض کے انقلابی نظریات کی عوامی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ مشاعرے میں شامل بہت سے شعراء کو بھی کالز اور میسجز کے ذریعے ہراساں کر کے اس مشاعرے میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی گئی، مگر انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اپنی ادب دوستی کا ثبوت دیا۔

مشاعرے کے آغاز پر پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے آرگنائزر عادل عزیز نے تنظیم کا تعارف کروایا اور پھر پارس جان نے فیض احمد فیض کی ادبی خدمات پر مختصر بات چیت کی۔ بعد ازاں تمام شعرائے کرام نے اپنی مقبول نظمیں اور غزلیں پیش کیں اور خوب داد سمیٹی۔ خاص طور پر مشاعرے کے مہمان خصوصی جناب خالد ندیم شانی نے ماحول کو خوب گرمایا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔

مشاعرے کے دوران کامریڈ پارس نے پروگریسو یوتھ الائنس کراچی یونیورسٹی کی رہنما زینب سید کو سٹیج پر مدعو کیا اور حاضرین کو بتایا کہ ان پر بھی جمعیت کے غنڈے حملہ آور ہوئے مگر انہوں نے بڑی جرات سے ان فسطائی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ شرکا اور سٹیج پر موجود شعرائے کرام نے کھڑے ہو کر زینب سید کا استقبال کیا۔ صدرِ محترم نے اس موقع پر ایک مختصر تقریر بھی کی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کی شدید مذمت کی۔ زینب سید نے بھی مختصر خطاب کیا اور ان کے خلاف چلنے والی کردار کشی کی غلیظ مہم کے بارے میں شرکا کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ایک موقع پر پارس جان نے پروگریسو یوتھ الائنس (کراچی یونیورسٹی یونٹ) کے سابقہ صدر آنند کو بھی سٹیج پر مدعو کیا اور ان کے خلاف ہونے والے غلیظ پروپیگنڈے کے بارے میں بتایا، تو شعرء اور حاضرین نے آنند اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کی۔ مشاعرے کے اختتام پر صدر محترم نے اپنی طویل اور شاندار نظم پیش کی، جس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کراچی یونیورسٹی کے صدر ساجد خان نے شعرائے کرام اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور انتہائی جذباتی انداز میں اپنے مخالفین کو للکارا اور انہیں کہا کہ ہم اس غنڈہ گردی سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور اگر تم ہمارا مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو آؤ ہم سے مکالمہ اور بحث مباحثہ کرو۔ انہوں نے ہر قیمت پر انقلابی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ شعرائے کرام کو شیلڈز تقسیم کر کے مشاعرے کا باقائدہ اختتام کر دیا گیا۔

مشاعرے میں مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ اور نوجوان سامعین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، جن میں سے 70 فیصد کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے تھا اور ایک بڑی تعداد میں طالبات نے مشاعرے میں شرکت کی۔ اس مشاعرے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھ یکجہتی کرنے کے لیے پشتون سٹوڈنٹس کونسل، سندھی شاگرد ست، پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹیو، پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن، ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی موجود تھے۔ اس مشاعرے کی کامیابی نہ صرف طلبہ، بلکہ بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کی نجات کی جدوجہد میں ایک سنگِ میل ثابت ہو گی۔

پروگریسو یوتھ الائنس (کراچی یونیورسٹی یونٹ) کے اس پہلے سالانہ مشاعرے نے اس طرز کی ترقی پسند ادبی تقریبات کے ایک نئے اور شاندار سلسلے کی بنیاد رکھی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو انقلابی فکر اور فن پہنچانے کے لیے روایتی بیڑیوں سے آزاد حقیقی معنوں میں ترقی پسند پلیٹ فارم فراہم کرتا رہے گا۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم طلبہ کو کیمپس میں منظم کرنے اور طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم کبھی کسی طاقت کے دباؤ میں نہیں آئے اور فیض کے انقلابی نظریات اور ان کی شاعری کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے گا اور اس مقصد کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ طلبہ کو درپیش دیگر مسائل بشمول فیسوں میں اضافہ، جنسی ہراسانی، بے روزگاری، ٹرانسپورٹ کی کمی، ہاسٹل کی سہولیات اور طلبہ کے دیگر تمام مسائل کے خلاف جدوجہد تیز کی جائے گی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.