عورت کی آزادی کا واحد راستہ، سوشلزم

|تحریر: اقصٰی خان|

دورِ حاضر میں ایک طرف ترقی پسندی کے دعوے صبح شام کئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف تنگ نظری، صنفی تعصب، غیرت کے نام پر قتل، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، زیادتیوں کے بڑھتے واقعات، تعلیمی مواقعوں میں کمی اور جنسی ہراسگی جیسے مسائل عام ہو چکے ہیں۔ دوسرے ممالک کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں خواتین زیادہ استحصال، جبر اور ناروا سلوک کا شکار نظر آتی ہیں۔ کثیر تعداد میں مزدور خواتین کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد فیکٹریوں میں کام کرتی ہے اور ان کے کام کرنے کے اوقات کار کے مطابق ان کو اجرت نہیں ملتی اور عالم یہ ہے کہ ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے اور دوسری جانب ہر دوسری کام کرنے والی عورت کو روزی روٹی کمانے کی اعصاب شکن جدوجہد میں جنسی ہراسگی اور حق تلفی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم ایک پدرسری سماج میں رہ رہے ہیں۔ اس سماج میں عورت کو مرد سے کمتر گردانا جاتا ہے اور ایسی سوچ رکھنے والے افراد عورت کے اوپر حاکمیت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے طبقاتی تضاد کی وجہ سے ہمیں سماج دو طبقوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ اس طبقاتی نظام کے جنم کیساتھ ہی اس پدر سری سماج کا بھی جنم ہوا تھا۔

Illustrative image of professional woman feeding her baby while using laptop

طبقاتی نظام کی موجودہ شکل یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں آج عورت گھر کے ساتھ باہر بھی برابر پس رہی ہے۔ خواتین کے لیے ہر شعبہ زندگی میں امتیاز نظر آتا ہے اور کسی قسم کی بہتری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں آج بھی لڑکیوں کو پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی اور جو لڑکیاں پڑھ بھی رہی ہیں ان کے لیے گھر سے نکلنا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔ کہیں گلی چوراہوں میں تو کہیں نام نہاد تعلیمی اداروں میں موجود افراد ان کے لیے زمین تنگ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ آج نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک سال سے لے کر نوے سال تک کی عورت محفوظ نہیں ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے نوشہرہ میں حوزنور کا دل دہلا دینے والا واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ یہاں ایک وڈیرا دن دہاڑے فائرنگ سے میڑک کی طالبہ کو چھلنی کر دینے پر قادر دکھائی دیتا ہے۔ تو کیا عورتوں کا جینا دوبھر نہیں کر دیا گیا؟ اس نظام کے اندر اب تو ہماری معصوم بچیوں کا مستقبل بھی خطرے میں ہے!

ہمیں شب و روز ایسے واقعات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں کسی لڑکی کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، تو کہیں تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کہیں اسے پنچایت کے فیصلے کے مطابق پتھر مار کر وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے، کہیں ان کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ایک ناسور کی مانند یہ مسائل دن بہ دن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کھوکھلے سرمایہ دارنہ معاشی نظام میں ان کا حل جوئے شیر لانے کے مترادف معلوم پڑتا ہے۔ پھر اگر سیاسی پارٹیوں، نام نہاد لبرلز، این جی اوز، ذرائع ابلاغ اور ریاست کو دیکھا جائے تو وہ ان تمام تر مسائل کو سیاسی اور معاشی مفادات کے لئے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر بیچنے کے لئے زخم موجود نہ ہوں تو منڈی میں بیچے بغیر کمائی کیسے ممکن ہے؟ کروڑوں، اربوں روپوں کی امداد، گرانٹس اور عطیات خواتین کی حالتِ زا کو بیچ کر حاصل کئے جاتے ہیں لیکن ان مسائل کے سنجیدہ حل کے لئے حکمران طبقے اور نام نہاد سِول سوسائٹی کے اکابرین انگلی ہلانے کو تیار نہیں۔ حکمران طبقے کی خواتین بھی اس گھناؤنے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ ان سب کے مفادات سرمایہ دارانہ نظام سے جڑے ہیں اور اس کی بقا میں ہی ان کی اپنی بقا ہے۔

لیکن ایک شفاف اور بلا تفریق غیر طبقاتی نظام میں ان مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں خواتین کو یکساں حقوق حاصل ہوں، جس میں کسی قسم کا ظلم وجبر نہ ہو اور عورت کو ملکیت نہ سمجھا جائے، وہ محفوظ اور آزاد ہو۔ ایسا نظام صرف سوشلزم ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.