بہاولپور: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

 

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 14جنوری2017ء کو بہاولپور میں ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن میں عالمی و ملکی تناظر پر بحث کی گئی۔ اس سیشن کو چیئر راول اسد نے کیا جبکہ آصف لاشاری نے موضوع سیر حاصل بات رکھی۔

عالمی و ملکی تناظر پر بات کرتے ہوئے آصف لاشاری نے کہا کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام آج ایک ایسے بحران کی لپیٹ میں ہے جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اور کس طرح آج پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے سیاسی اور سماجی اثرات رونما ہو رہے ہیں۔ آج دنیا کے مختلف خطوں میں نئے سیاسی رجحانات جنم لے رہے ہیں اور پرانے سیاسی رجحانات اس عہد میں کوئی فعال کردار ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں۔ اور آج سرمایہ دارانہ نظام اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں سے یہ نظام انسانی معاشرے کو مزید آگے لے کر نہیں جا سکتا۔ اور آج اس نظام کے زوال کے قہر سے اگر نسل انسانی کو بچانا ہے تو ہمیں اس سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کو ختم کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت کی طرز پر سماج کو چلانا ہوگا۔ جس کے لئے ایک سوشلسٹ انقلاب ناگزیر ہے۔

آصف لاشاری کی مفصل بات کے بعد دیگر نوجوانوں نے اس موضوع پر بات کی جن میں عادل راؤ، جییند بلوچ، عبدالرحمان بلوچ، جلیل رحمان اور نعمان قادر شامل تھے۔ آخرمیں آفتاب اشرف نے اس سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقاء کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ بتایا کہ کیوں سرمایہ دارانہ نظام انسانی سماج کو مزید ترقی نہیں دے سکتا۔

سکول کے دوسرے سیشن میں انقلابِ روس کے عظیم لیڈر لیون ٹراٹسکی کے ’’نظریہ انقلابِ مسلسل‘‘ پر مفصل بحث کی گئی۔ اس سیشن کو آصف لاشاری نے چیئر کیا جبکہ موضوع پر بحث کا آغاز فضیل اصغر نے کیا۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے فضیل اصغر نے کہا کہ ٹراٹسکی کا نظریہ انقلابِ مسلسل بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انقلاب، سماج کے ارتقاء کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی بھی رائج الوقت نظام سماج کو مزید ترقی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور سماج کو آگے لے کر جانے کیلئے عوام کی سیاسی معاملات میں مداخلت ناگزیر ہوجاتی ہے اور عوام معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے رائج الوقت نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہیں اور نیا نظم تخلیق کرتے ہیں جو کہ پچھلے نظام سے ذیادہ انقلابی ہوتا ہے۔ پوری انسانی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ پسے ہوئے طبقات ایک فیصلہ کن لڑائی لڑ کر حکمران طبقے کو بے دخل کر دیتا ہے۔ انسانی سماج کی تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا ہے جب محروم طبقات اپنے حالات کو بہتر بنانے کیلئے حکمران طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس نظام کو ہی اکھاڑ پھینکا۔ آج ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں اسے سرمایہ داری کہتے ہیں۔ اور پہلے سیشن میں ہم نے تفصیل کیساتھ اس نظام کے ارتقاء اور آج اس کے بحران کی نوعیت پربات کی ہے۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اب صرف قتل و غارت اور جنگوں کے ذریعے ہی انسانی سماج کو اور چلا سکتا ہے۔ اب ایسا ہونا ممکن نہیں کہ یہ نظام پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دیتے ہوئے نسل انسانی کو بلند معیار زندگی فراہم کر سکے۔ لہذا آج ہمارا بنیادی فریضہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ مگر ایسا صرف سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے اور اس کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے۔ جو درست نظریات اور تناظر سے لیس ہو۔ نظریہ انقلابِ مسلسل لیون ٹراٹسکی کا وہ تناظر تھا جو اس نے روس انقلاب کے بارے میں 1904ء میں پیش کیا تھا۔ چونکہ روس میں سرمایہ دارانہ نظام انقلاب کی صورت میں نہیں آیا بلکہ سامراجی سرمائے کے بل پر آیا تھا اور روس کے اندر ابھی تک جاگیرداری کی باقیات موجود تھیں۔ لہذا روس کا انقلاب دو صورتوں میں مسلسل ہوگا، پہلی صورت تو یہ کہ وہ جاگیرداری کی باقیات کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلزم کی جانب پیش قدمی کرے گا اور دوسرا یہ کہ روس کا انقلاب صرف روس میں نہیں رہ سکتا اور اسکی بقا کیلئے اسے روس کی سرحدوں کو چیرتے ہوئے پہلے یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلنا ہوگا۔ اس تناظر میں ٹراٹسکی نے یہ کہا کہ کہ روس کے اندر ایک سوشلسٹ انقلاب ممکن ہے جس کی قیادت روسی محنت کش طبقہ عوام کی وسیع تر اکثریت بالخصوص کسانوں کی حمایت جیتتے ہوئے کرے گا۔

جبکہ اس تناظر کے مخالف دو اور تناظر بھی تھے۔ جن میں ایک منشویکوں کا تناظر تھا جن کا کہنا تھا کہ روس کا انقلاب سرمایہ دارانہ انقلاب ہوگا اور اسی بنا پر اس کی قیادت سرمایہ دار کریں گے۔ اور ایک طرف لینن کا تناظر تھا(اپریل 1917ء سے پہلے تک) جس کا کہنا تھا کہ روس کے انقلاب کی نوعیت سرمایہ دارانہ ہی ہوگی مگراس کی قیادت محنت کش طبقہ اور کسانوں کا ایک انقلابی اتحاد کرے گا جس میں مرکزی کردار پرولتاریہ کا ہوگا، روسی بورژوازی تاریخی طور پر اس کام کے لئے نا اہل ہے۔ اور بالآخر 1917ء کے روس انقلاب نے ٹراٹسکی کے نظریہ انقلابِ مسلسل کو درست ثابت کیا۔ موجودہ عہد میں بھی انقلاب کی نوعیت پر بحث وجود رکھتی ہے، خاص طور پر پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں جیسے پاکستان۔ جس کو سمجھنے کیلئے ہمیں ٹراٹسکی کے نظریہ انقلابِ مسلسل کو سمجھنا ہوگا۔ اس کے بعد جن دوستوں نے اس موضوع پر بات کی ان میں یاسر ارشاد، راول اسد اور عادل راؤ شامل تھے۔ آخر میں آفتاب اشرف نے سم اپ کرتے ہوئے تمام سوالات کے جواب بھی دیے اور یہ بتایا کہ کس طرح سٹالنسٹ افسر شاہی کی نظریاتی زوال پذیری اور مرحلہ وار انقلاب جیسے ردانقلابی نظریے کے باعث کئی انقلابات ضائع ہوئے جن سے آج ہمیں سبق سیکھ کر آگے چلنا ہوگا۔

سکول کا اختتام مزدوروں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.