|عرفان منصور، مرکزی انفارمیشن سیکریٹری، پی وائی اے|
گزشتہ ہفتے مختلف ممالک کے تقریباً 800 مہاجرین ایک کشتی کے ذریعے لیبیا سے اٹلی جا رہے تھے کہ وہ اپنا راستہ بھٹک گئی اور یونان کی جانب گامزن ہو گئی۔ یونان کے قریب یہ کشتی ڈوب گئی اور تقریباً 600 سے زائد سوار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ بچ جانے والوں کے مطابق اس کشتی پر 400 کے قریب پاکستانی، 200 مصری، عورتوں اور بچوں سمیت 150 شامی اور فلسطینی سوار تھے جو اپنے ممالک میں غربت اور بیروزگاری کی زندگی سے تنگ آ کر روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہوئے بہتر زندگی کا خواب لیے جان گنوانے پر مجبور کر دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونانی کوسٹ گارڈ کو اس کشتی کا علم تھا مگر انہوں نے انہیں مرنے سے نہیں بچایا۔ بچ جانے والے پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے دبئی لے جایا گیا، وہاں سے مصر اور پھر مصر سے لیبیا۔ رستے میں انہیں کئی کئی دن بھوکا بھی رکھا گیا۔ اس کے خلاف پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خصوصاً یونان میں ہزاروں محنت کشوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے دلالوں کی جانب سے ان کی موت کا ذمہ دار ان بد نصیب محنت کشوں کو ہی ٹھہرایا جا رہاہے۔ دوسری طرف عالمی سرمایہ دارانہ میڈیا پر بھی جہاں مگر مچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غیر قانونی طور پر ہجرت کرنا غلط ہے اور اس طرح ان اموات کا جواز گھڑا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے۔ 600 افراد کا قاتل پاکستانی ریاست، یونان سمیت دیگر سرمایہ دارانہ ریاستیں؛ اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا ویزا سسٹم ہے۔
لہٰذا پروگریسو یوتھ الائنس 22 اور 23 جون (بروز جمعرات اور جمعہ) کو ملک کے متعدد شہروں میں احتجاج منعقد کر رہا ہے۔ ہم تمام ترقی پسند طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں سے ان احتجاجوں میں شریک ہونے کی اپیل کرتے ہیں۔ یہ احتجاج پاکستانی حکمرانوں، بیروزگاری؛ اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ویزا سسٹم کے خلاف منعقد کیے جائیں گے۔ ان میں ہم مطالبہ کریں گے کہ پاکستانی حکومت نئے روزگار کے مواقع پیدا کر کے تمام بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے، اور جب تک سب کیلئے یہ مواقع پیدا نہیں ہوتے تب تک تمام بیروزگاروں کو 25 ہزار روپے ماہانہ بیروزگاری الاؤنس فراہم کرے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے کئی سانحات پیش آچکے ہیں اور ہزاروں افراد غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرتے ہوئے مارے جا چکے ہیں یا پھر ان ریاستوں کی جیلوں میں مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اس طرح غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے تھے؟ پاکستان میں پچھلے ایک سال میں تقریباً 8 لاکھ سے زائد لوگ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ”پاکستان سے زندہ بھاگ“ جیسے فقرے آئے روز سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ جس کا بنیادی سبب اس ملک میں آئے روز بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور معاشی گراوٹ ہے۔ افراطِ زر 45 فی صد کے لگ بھگ ہے اور کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ہر سال مہنگی ڈگریاں لے کر لاکھوں طلبہ بیروزگار وں کی فوج کا حصہ بن رہے ہیں، جن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایسے میں اس ملک سے بھاگ جانا اور کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کر روزگار تلاش کرنا ہر شخص کی خواہش ہے۔ اس لیے جہاں لاکھوں لوگ قانونی طور پر ملک سے باہر جا رہے ہیں، وہیں ہزاروں ایسے ہیں جو ایجنٹوں کے ہاتھ لگ کر غیر قانونی ذرائع سے جاتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
اس حادثے پر ریاست نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے ’یوم سوگ‘ منانے کا بھی اعلان کیا ہے جو ان اموات کا سراسر مذاق اڑانا ہے۔ حکمران طبقہ ان افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی بجائے اپنی مراعات اور عیاشیوں میں اضافہ کرتا جا رہا ہے جبکہ عوام دشمن پالیسیوں کے باعث بیروزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر محنت کشوں کی اجرتیں انتہائی کم ہیں اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے باعث بارہ سے سولہ گھنٹے روزانہ کام کرنے کے بعد بھی ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتیں اور محنت کش غربت اور ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی، کم اجرتوں اور دیگر مسائل کے خلاف آواز اٹھانے پر ریاستی اداروں اور سرمایہ داروں کی جانب سے بد ترین جبر کیا جاتا ہے اور سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ بہت سے اداروں میں چھ ماہ تک اجرتیں ادا نہیں کی جاتیں اور کئی دفعہ مالکان کئی ماہ کی اجرتیں ادا کیے بغیر مزدوروں کو نکال دیتے ہیں، لیکن ان مظالم پر قانون کبھی حرکت میں نہیں آتا اور ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔ایسے میں اس دوزخ نما ملک سے فرار ایک منطقی نتیجہ بنتا ہے جس کے لیے ہر کوئی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ حکمران ان تمام مسائل کو حل کرنے کی بجائے مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان افراد کے قتل کی ذمہ داری یونان سمیت دیگر سرمایہ دارانہ ریاستوں پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ ان ممالک کے حکمران طبقات اپنے جرائم اور مزدور دشمن پالیسیوں کے باعث پیدا ہونے والے بحرانوں اور مہنگائی کو چھپانے کے لیے ان مہاجرین کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں اور ان کے خلاف قوانین منظور کیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف انہی یورپی سامراجی ریاستوں کی جانب سے پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کی کھل کر لوٹ مار کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں غربت اور بیروزگاری سے تنگ آ کر محنت کش عوام کو ملک چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس سامراجی لوٹ مار میں مقامی حکمرانوں کو کمیشن دے دیا جاتا ہے جبکہ محنت کشوں کی محنت سے پیدا کی گئی دولت کی کھل کر لوٹ مار کی جاتی ہے۔
ویسے تو امریکی و یورپی ممالک اور اقوام متحدہ جیسے عالمی سامراجی ادارے جمہوریت، انسانی حقوق اور آزاد عالمی منڈی کا پرچار کرتے ہیں، مگر جب بھی عملی میدان میں ان کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنے سامراجی مفادات کے تحت یہ منافقانہ طرز اختیار کرتے ہوئے اپنے اصول تبدیل کر لیتے ہیں۔ مغربی سامراجی ممالک کی پالیسیوں اور منافع کی ہوس ہی ایسے حالات کو پروان چڑھاتی ہے جو دنیا کے پسماندہ ممالک کے لاکھوں افراد کو ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔ ان میں امریکہ کی جانب سے عراق اور افغانستان پرجارحیت سمیت شام، لیبیا، سوڈان اور دیگر ممالک میں خانہ جنگیاں کروانا، اپنی مخالف حکومتوں کیخلاف سازشیں کرنا اور وسائل کی لوٹ مار جیسے جرائم شامل ہیں جن کے باعث ان ممالک میں زندگی جہنم بنا دی گئی ہے۔
اسی طرح یہ ویزا سسٹم بھی سرمایہ دارانہ نظام کے حقیقی انسان دشمن چہرے کو عیاں کرتا ہے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام آزاد منڈی کا نظام ہے جس میں ہر شخص آزاد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک طرف قومی ریاست کو تشکیل دیتا ہے اور سرمایہ دار کے لیے قومی منڈی قائم کرتا ہے وہاں سرمائے کے قومی حدود پھلانگنے کے بعد نئی منڈیوں کی تلاش میں دنیا بھر کے سرمایہ دار سرگرداں بھی رہتے ہیں۔ لیکن جہاں گزشتہ چند دہائیوں میں سرمائے کے پوری دنیا میں پھیلاؤ کے لیے قانون سازی نرم کی گئی ہے اور اسے آسانی سے ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کی اجازت ہر سطح پر دی گئی ہے وہا ں محنت کشوں کو قومی حدود میں قید رکھنے کے قوانین سخت سے سخت کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کا حکمران طبقہ اپنے جرائم کا ملبہ مہاجرین پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ملک کے محنت کشوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی بیروزگاری کی وجہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے محنت کش ہیں۔ جبکہ غیر قانونی طور پر آنے والے محنت کشوں سے کم ترین اجرتوں پر کام لے کر ہی ہر ملک کا سرمایہ دار طبقہ اپنے منافعوں میں بھی کئی گنا اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔
عالمی سطح پر پاسپورٹ اور ویزا کا نظام ہمیشہ سے نہیں تھا اور اس کی موجودہ شکل سامراجی طاقتو ں کی لوٹ مار کی پالیسیوں کے نتیجے میں گزشتہ صدی کے اندر ہی ابھری ہے۔ اس ویزا سسٹم کے عتاب کا نشانہ بھی محنت کش ہی بنتے ہیں جبکہ سرمایہ داروں کو اس حوالے سے دنیا میں کہیں بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ اگر آپ کے پاس نجی طیارہ ہے تو دنیا کے تمام ممالک میں خصوصی ائیر پورٹوں کے ذریعے آمد و رفت ممکن ہے جس میں اکثر کسی قسم کے قانونی دستاویزات کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ دوسری جانب پسماندہ ممالک کے محنت کشوں کو جہاں ان کے اپنے ملک کا حکمران طبقہ لوٹتا ہے وہاں سامراجی طاقتیں بھی ان کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کرتی ہیں اور موت کے منہ میں دھکیلنے کے لیے ہر طرح کا جبر کرتی ہیں۔ ایک جانب سامراجی جنگوں، خانہ جنگیوں، مالیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں دیوالیہ پن، بحرانوں اور دیگر ذرائع سے ان محنت کشوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب اگر بچ جانے والے محنت کش ان مظالم سے فرار ہونے کی کوشش کریں تو انہیں ویزا سسٹم کے ذریعے قابو کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدوں پر موجود بارڈر سکیورٹی کے ذریعے ویزے کے بغیر آنے والے افراد کو قتل کرنے اور ان پر بد ترین مظالم کرنے کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔ اس عمل میں بارڈر سکیورٹی اور ایجنٹوں کا گٹھ جوڑ بھی اکثر نظر آتا ہے جو اس خونی کھلواڑ میں مل کر مہاجرین کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔
آج سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی بحران کا شکار ہے اور نام نہاد عالمگیریت مکمل طور پر اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آج امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک شدید بحران کا شکار ہیں اور تاریخی مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں دائیں بازو کے سیاست دان اس بحران کے ذمہ دار مہاجرین کو ٹھہرا رہے ہیں اور اسی پر اپنی رجعتی سیاست کر رہے ہیں۔ اسی سیاست کے تحت مہاجرین کو سرحدوں پر قتل کروانے جیسی پالیسیاں مسلط کی جا رہی ہیں اور تحفظاتی طریقوں پر عمل پیرا ہو کر سرمایہ داری کو بچانے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ اسی کے نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک میں رہنے والوں کیلئے ان ممالک کا ویزا لینا اور بھی مشکل ہو چکا ہے جبکہ بیروزگاری سے تنگ یہ محنت کش ان غیر قانونی رستوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، وہ بھی اپنی تمام تر جمع پونجی کے عوض کسی ایجنٹ کے ذریعے۔
ایک طرف سرمایہ دارانہ ریاستیں انسانی حقوق، جمہوریت اور انسانی بھائی چارے کا منافقانہ درس دیتی نظر آتی ہیں جبکہ دوسری طرف دنیا بھر کے محنت کشوں پر مظالم ڈھا رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قائم قومی ریاستیں اور یہ ویزا سسٹم در حقیقت انسانیت کی تذلیل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا متبال صرف ایک سوشلسٹ نظام ہے۔ اس نظام میں جب مزدور ریاست تشکیل دی جاتی ہے تو کوئی بھی شخص غیر قانونی نہیں رہتا اور دستاویزات سے زیادہ جیتے جاگتے انسانوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ سوشلسٹ نظام کے تحت رہنے والے ہر شخص کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور اس میں قوم، رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی تفریق نہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی کو سوشلسٹ ریاست میں آنے سے کبھی روکا جاتا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد ہی طبقاتی تقسیم اورا ستحصال پر ہے جس کے لیے محنت کشوں کو قومی اور دیگر بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ان جیسے دیگر خصی ادارے مہاجرین کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے اور نہ ہی پاکستان کا حکمران طبقہ بیروزگاری اور مہنگائی کا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ ان کا مستقل حل سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت یعنی سوشلزم کے قیام کی صورت ہی ممکن ہے۔ سوشلزم میں استحصال اور بے روزگاری کے مکمل خاتمے اور مفت تعلیم و صحت کی گارنٹی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے عالمی نظام کی بنیاد ڈالی جائے گی جس میں پوری دنیا میں رہنے والے محنت کش ریاستوں میں تقسیم ہوکر لڑنے کی بجائے ایک عالمی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہوں گے اور دنیا بھر سے ان مصنوعی خونی لکیروں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ایک ایسی دنیا جس میں کوئی مہاجر نہیں ہوگا اور پوری دنیا میں لوگ ایسے رہیں گے جیسے ایک آسمان کے نیچے ایک خاندان۔ اس لیے ایک سوشلسٹ انقلاب ہی وہ واحد ضامن ہے جو بیروزگاری، مہنگائی، جبر اورسرحدوں کا خاتمہ کرتے ہوئے موجودہ سانحے جیسے انسانیت سوز سانحات کو قصہ پارینہ بنادے گا۔
روزگار دو یا ماہانہ 25 ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس دو!
مہاجرین دشمن سرمایہ دارانہ ریاستیں مردہ باد!
منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام مردہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشوں کی سوشلسٹ فیڈریشن زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!