|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ، ڈی جی خان|
مورخہ 09 جنوری 2019 ء کو ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی میں فورتھ ائیر کی نرسنگ طالبات نے ایم ایس کے ہتک آمیز رویے اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔ تفصیلات کے مطابق ایم ایس نے نرسنگ طالبات کو ڈیوٹی سر انجام دینے کے دوران وارڈ کے اندر مریضوں کے سامنے گالیاں دیں ، انہیں بد کردار کہا اور طالبات کے ساتھ گھٹیا گفتگو کی جس پر نرسنگ کی طالبات نے منظم ہو کر ایک پر امن احتجاج ریکارڈ کرایا۔
نرسنگ طالبات کا کہنا تھا کہ آفیسران کی جانب سے گھٹیا زبان کا استعمال اور نرسز کو ہراساں کرنا ایک معمول بن چکا ہے اور نرسنگ طالبات سے ظالمانہ ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں اور بات بات پر طالبات کو فیل کرنے یا نرسنگ سکول سے نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ طالبات کے اس احتجاج کے بعد فورتھ ائیر کی کچھ طالبات کو سکول سے نکال دیا گیا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس نرسز کو ہراساں کرنے، ان سے نا زیبا رویہ اختیار کرنے،گالم گلوچ اور ظالمانہ ڈیوٹیاں عائد کرنے کی مذمت کرتی ہے اور نرسنگ طالبات کی اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نرسنگ سکول سے نکالی جانی والی طالبات کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔
اگر جبری طور پر نکالی گئی نرسز کو جلد از جلد بحال نہیں کیا گیا تو پروگریسو یوتھ الائنس ملک گیر احتجاج کی کال دے گی۔ ہم یہ واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ نرسز اکیلی نہیں ہیں۔ پورے ملک کے طلبہ ان کے ساتھ ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبات اور محنت کش خواتین کیساتھ (انکے کام کرنے والی جگہ پر) آئے روز ہونے والی ہراسمنٹ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر ادارے میں پایا جاتا ہے۔لہٰذا اسکا مقابلہ صرف ملک گیر اتحاد کی صورت میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ جب تک ہم علیحدہ علیحدہ ہیں ہمیں ڈرایا بھی جا سکتا ہے، دھمکایا بھی جا سکتا ہے، دیگر ہتھکنڈوں سے خاموش بھی کرایا جا سکتا ہے ۔ مگر، جب پورے ملک کی طالبات ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونگی ، ایک ایسے پلیٹ فارم پر جس میں نا صرف وہ بلکہ طلباء بھی انکے ساتھ ہوں (یاد رہے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کا شکار طلباء بھی ہوتے ہیں) تو پھر کسی ایک لڑکی کو بھی ہراساں کرنے سے پہلے کوئی بھی نام نہاد سینئر افسر یا استاد لاکھ بار سوچے گا۔ کیونکہ تب اسے یہ خطرہ ہوگا کہ اسکے خلاف ملک گیر احتجاج ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے نا صرف وہ پورے ملک میں بدنام ہوگا بلکہ نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا اور قانونی شکنجے میں بھی پھنس جائے گا۔ آج ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارے دکھ سانجھے ہیں،لہٰذا جدوجہد بھی سانجھی ہی ہو سکتی ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!