ہاسٹل سٹی اسلام آباد: نجی ہاسٹل مافیا کی لوٹ مار نامنظور !

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، ہاسٹل سٹی اسلام آباد|

 

لوٹ مار کے اس نظام میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ منافع بٹورنے کی دوڑ میں لگا ہے جس میں بالخصوص نجی تعلیمی ادارے سر فہرست ہیں۔ یہ لوٹ مار صرف تعلیمی ادارے کے اندر ہی نہیں تعلیم سے جڑی ہر چیز میں جاری ہے، چاہے وہ ہاسٹل ہوں یا کتابیں یا یونیفارمز۔

پاکستان میں سب سے کم بجٹ تعلیم کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ پرائیویٹ اداروں کو لوٹ مار کا موقع دیا جائے۔ کورونا وباء کی آڑ میں سرکاری و نجی یونورسٹیوں نے درکار وسائل مہیا کیے بغیر تعلیمی نظام کو آن لائن گھسیٹنے کا ڈرامہ متعارف کروا دیا ہے جو طلبہ کے مستقبل اور ان کے والدین کی خون پسینے کی کمائی کے ساتھ ایک گھناؤنے مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے باعث روزگار کے مواقع پہلے ہی ناپید ہوچکے ہیں جس کے باعث بیشتر طلبہ کے لیے تعلیم کے بعد ملنے والی ڈگری محض کاغذ کا ٹکڑا ہے جس کی کوئی مارکیٹ ویلیو ہے ہی نہیں۔ اوپر سے پاکستان میں جب بھی بجٹ کاٹنا ہوتا سب سے پہلا وار تعلیم اور صحت کے اداروں پر ہی کیا جاتا ہے۔ یہی حال کورونا وبا میں بھی ہوا ہے۔ بے حس حکومت نے سب سے پہلے تمام تعلیمی اداروں کو بند کر دیا ہے جبکہ تمام مارکیٹیں، ٹرانسپورٹ، پارک غرض ملک کا ہر شعبہ معمول کے مطابق کھلا ہے۔

پاکستان تعلیمی حوالے سے ایک پسماندہ ملک ہے۔ یہاں سرکاری تعلیمی ادارے آبادی کے تناسب سے نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے ہر گلی محلے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی وجہ سے غریب خانداوں کے بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہو کر پچپن میں ہی سرمایہ داروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن کچھ طلبہ جو نجی اداروں میں اپنی تعلیم بمشکل جاری رکھ پاتے ہیں وہ بھی تاریک مستقبل کی طرف جارہے ہیں۔

سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری ہاسٹلز کی تعداد بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے طلبہ نجی ہاسٹلز میں رہنے پر مجبور ہیں۔ نجی ہاسٹلز کی جانب سے لوٹ مار کا سلسلہ بالکل نجی تعلیمی اداروں جیسا ہے اور وقتاً فوقتاً طلبہ پر حملے جاری رہتے ہیں۔

ایک ایسا ہی حملہ اسلام آباد کے علاقے چٹھہ بختاور میں موجود ہاسٹل سٹی کے مالکان کی طرف سے کیا گیا ہے جس میں طلبہ دشمنی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ ہاسٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے ہیں جو پہلے تھری سیٹر روم کا سات ہزار، ٹو سیٹر روم کا نو ہزار اور سنگل سیٹر روم کا بارہ ہزار تھا۔ اب تھری سیٹر روم نو ہزار، ٹو سیٹر روم گیارہ ہزار اور سنگل سیٹر روم پندرہ ہزار کا ملے گا۔

ہاسٹل سٹی کے مالکان کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی طالب علم لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہاسٹل چھوڑ کر اپنے علاقے کی طرف چلا جاتا ہے اور اس کا سامان ہاسٹل میں پڑا ہوا ہے تو اسے پچاس فیصد فیس ادا کرنا پڑے گی۔ ہاسٹل چھوڑنے کی صورت میں این او سی لینا ضروری ہے۔ اگر کوئی طالب علم سابقہ ہاسٹل سے این او سی نہیں لائے گا تو اسے دوسرے کسی بھی ہاسٹل میں جگہ نہیں ملے گی۔ دراصل بات صرف این او سی کی نہیں، اس این او سی کی آڑ میں طلبہ سے ہاسٹل کے کرائے بٹورنا مقصود ہے جبکہ طلبہ ہاسٹل میں رہے ہی نہیں ہیں۔

ہم سجھتے ہیں یہ نوٹیفیکیشن لوٹ مار کو جاری رکھنے کا ایک کھلم کھلا اظہار ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کے بعد طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے لیکن یونیورسٹیاں بند ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں، جس کی وجہ سے تاحال کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ مگر طلبہ نے واٹس ایپ گروپس میں بحثوں کا آغاز کر دیا ہے کہ اور اس بات پر اتفاق پایا جارہا ہے کہ جیسے ہی یونیورسٹیاں دوبارہ کھلیں گی طلبہ واپس آ کر سب سے پہلے اس کے خلاف کمپیئن شروع کریں گے۔

پروگریسیو یوتھ الائنس ہاسٹل مالکان کے اس طلبہ دشمن فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ پی وائی اے اس سے پہلے بھی ہاسٹل سٹی کے اندر طلبہ کے مسائل حل کرنے کی خاطر ان کی اپنی خودمختار کمیٹیاں بنانے کی کمپیئن کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی طلبہ کے ساتھ اس جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.