حکمرانوں کا ’نیا پاکستان‘ اور غریب عوام

|تحریر: نفیسہ|

”ملکی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔۔۔معیشت استحکام کی جانب رواں دواں ہے“ یہ وہ جملے ہیں جو آج کل سرکار کی جانب سے سننے کو ملتے ہیں اور عوام سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے حالات و واقعات کو نظرانداز کر کے ”سب اچھا ہے“ کی امید رکھیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے 2008 کے عالمی معاشی بحران کے بعد پاکستان کی معیشت مسلسل بحران کا شکار رہی ہے اور آج دس سال گزرنے کے بعد عالمی معیشت بحالی کی بجائے ایک نئے اور زیادہ گہرے بحران کے دہانے پر کھڑی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں نا صرف طاقتوں کا توازن تبدیل ہو رہا ہے بلکہ پسماندہ ممالک دیوالیہ پن کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ پاکستان بھی پہلے سے زیادہ معاشی، سیاسی اور ریاستی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے جس سے بچنا کسی بھی طور ممکن نہیں۔ محنت کشوں پر ہونے والے ٹیکسوں، نجکاری، مہنگائی اور بے روزگاری کے حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔ تبدیلی سرکار نے لوگوں کو ”نئے پاکستان“ کی امید دلائی تھی مگر یہ سرکار بھی سابقہ حکومتوں کی طرح اپنے طبقے کے مفادات کی محافظ نکلی اور دو ’منی بجٹ‘ کے ساتھ ساتھ مالی سال 2019-20 میں بھی اس نے پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے عوام کی امیدوں کا گلا گھونٹا اور سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی۔ ’سلیکٹیڈ حکومت (پچھلی تمام حکومتوں کی طرح)‘ کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے (بھیک نہ مانگنے کا دعویٰ، نئے گھروں کا دعویٰ،نوکریوں کا وعدیٰ،لوٹا پیسہ واپس لانے کا وعدہ،مدینے جیسی ریاست کا دعویٰ وغیرہ)۔ حکومت کی بنیاد ہی چوروں اور لٹیروں پر رکھی گئی، پھر آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلائے گئے، ملکی اداروں کو بیچنے کا فیصلہ کیا گیا، بجٹ میں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو بچاتے ہوئے عوام کو ٹیکسوں کی زنجیروں میں جکڑا گیا (ابھی اس پر مزید کام جاری ہے)، ترقیاتی بجٹ کم کیا گیا، غرض ہر وہ ہتھکنڈا آزمایا گیا جس سے محنت کش طبقے کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ یوں لگتا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لئے غریب کو ختم کرنے کی مہم چلائی گئی ہے۔

تبدیلی سرکار نے آتے ہی پچھلی حکومتوں کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے نجکاری کے حملے شروع کئے اور اداروں کو اپنے دوست احباب میں بانٹنے کا لائحہ عمل تیار کیا اور ہسپتالوں سے لے کر اسٹیٹ لائف اور یوٹیلیٹی اسٹورز جیسے منافع بخش ملکی اداروں کو کوڑی کے داموں بیچنا شروع کر دیا۔ بجائے اس کے کہ بے روزگاروں کو نوکریاں دی جاتیں الٹا لوگوں سے نوکریاں چھینی گئیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری و ساری ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج جو پہلے ہی ایک کثیر آبادی کی پہنچ سے دور تھا اس کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش جاری ہے اور ہسپتالوں کیلئے بجٹ میں انتہائی کم حصہ مختص کرتے ہوئے اور صحت کے مراکز کی نجکاری کرتے ہوئے عوام سے صحت کی سہولت بھی چھینی جا رہی ہے۔ اب غریب بے چارہ یا تو بیمار نہ ہو اور اگر بیمار ہو جائے تو علاج کو ترستا مر جائے۔ ساتھ ہی مہنگائی کا بم پھوڑ کر رہی سہی کسر بھی نکالی گئی۔ آٹے، دال، چینی اور گیس سے لے کر تمام بنیادی ضروریات کی اجناس پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے عام انسان کی زندگی ایک عذاب بن چکی ہے۔ دو وقت کی روٹی اور صحت کے بعد محنت کشوں کے بچوں سے تعلیم جیسی بنیادی سہولت بھی دور کر دی گئی، سرکاری تعلیمی اداروں کا بجٹ آدھا کر دیا گیا۔ نئی یونیورسٹیاں کالج بنانے کے بجائے پہلے سے موجود اداروں کے اخراجات بھی کم کر دیئے گئے جسکی وجہ سے تمام یونیورسٹیوں نے آنے والے سمسٹر میں فیسوں میں اضافے کا اندیہ دے دیا ہے جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان اب تعلیم سے محروم ہوں گے کیونکہ ان کے پاس اتنی مہنگی تعلیم خریدنے کیلئے قوت خرید موجود نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اداروں کو دیا جانے والا بجٹ وزراء کی مراعات میں صرف کر دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ریلوے میں ایک حادثہ ہوا جس میں وزیر ریلوے نے اپنی اور حکومت کی نا اہلی کو چھپاتے ہوئے کاروائی ایک عام گارڈ کے خلاف کرنے کا حکم دیا۔ ایسے حالات میں ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم اور ریپ کیسز نے لوگوں کو ذہنی پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس صورت حال میں حکومتی عہدیداران اور اپوزیشن کی آپسی لڑائیاں ان بگڑتے حالات میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہی ہیں۔ سابقہ اور موجودہ حکمران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ اقتدار کی کرسی سے بندھنے کی خواہش نے ان کے حواس معطل کر رکھے ہیں۔ احتساب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان سب چیزوں کی وجہ سے حکمران طبقے کے تمام دھڑے (حکومت اور اپوزیشن) دن بدن غیر معقول ہوتے جارے ہیں اور عوام کی نفرت ان کے خلاف بڑھتی جا رہی ہے۔

دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں ایسے ہی حالات ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے یہ نظام اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں حکمرانوں کا عوام کو ایک خوشحال اور روشن مستقبل کی امید دلانا گھناؤنے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ محنت کشوں کو اب اپنے اور اپنے طبقے کے لئے خود آواز بلند کرنی پڑے گی اور اس بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے اس سے جان چھڑا کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.