ملتان: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ پر تعلیمی بندشیں اور دھمکیاں نامنظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی مسلسل طلبہ پر حملے کر کے اُن پر تعلیم کے دروازے بند کرتی جا رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں یونیورسٹی نے بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کی سکالرشپ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ اپنے اس مسئلے کے حل کے لیے گزشتہ چند ہفتوں سے حکومت کے آگے اپیل کر رہے ہیں مگر کسی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہو سکی۔ اب آخرکار طلبہ نے اپنی مدد آپ کے تئیں احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے اور یکم ستمبر سے بلوچ سٹوڈنٹس کونسل نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے۔

بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کا طلبہ کے حقوق پر یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے بلکہ طلبہ ایک لمبے عرصے سے اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے آ رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر یونیورسٹی نے فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے لیے مختص کوٹے کی نشستیں اور سکالرشپس دونوں کے خاتمے کی بات کی تھی مگر طلبہ کے دباؤ کے باعث کوٹے کی نشستیں تو بحال کر دی گئیں مگر مخصوص سکالرشپ جن کے تحت ان پسماندہ خطوں کے طلبہ اتنی دور آ کر مفت تعلیم اور مفت رہائش حاصل کرتے رہے ہیں، اس پر بھی یونیورسٹی انتظامیہ اپنی گندی نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ طلبہ کی سکالر شپ ختم کرنے کا مطلب ہے کہ مختص کوٹے پہ آنے والے طلبہ ہوں چاہے اوپن میرٹ والے، انہیں لازماً فیسوں اور ہاسٹل کی رہائش کے اخراجات کا بوجھ اُٹھانا پڑے گا۔ ہم یہاں یہ باور کروا دیں کہ بلوچستان اور فاٹا لمبے عرصے سے فوجی جبر اور دہشتگردی کا شکار رہے ہیں اور یہاں ریاست کسی بھی قسم کی تعلیمی سہولیات فراہم نہیں کر سکی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ریاست ان پسماندہ ترین خطوں میں فوجی جبر اور دہشتگردی کا خاتمہ کر کے یہاں آبادی کے تناسب سے تعلیمی ادارے قائم کرتی مگر ریاست نے چار چار نشستوں کے کوٹے کے ذریعے اپنی جان چھُڑائی اور ہر معاملے سے بری الذّمہ ہو گئی۔ مگر طلبہ کی ان سب سہولیات پر حملہ سراسر ناانصافی ہے جس کی پروگریسو یوتھ الائنس پُرزور مذمت کرتا ہے۔

ایک طرف طلبہ کے حقوق ضبط کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے احتجاج کرنے والے طلبہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ شب بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے قائم کردہ احتجاجی کیمپ کے طلبہ کو دھمکیاں دے کر انہیں تِتر بِتر کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ پروگریسو یوتھ الائنس ”ایک کا دُکھ، سب کا دُکھ“ کے تحت یونیورسٹی انتظامیہ کی اس غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کی نہ صرف سکالرشپ بحال کی جائے بلکہ آبادی کے تناسب سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور تمام طلبہ کے لیے ہر سطح پر مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن طلبہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اپنے حقوق حاصل کرنے اور اپنی لڑائی جیتنے کے لیے انہیں متحد ہونا پڑے گا اور طلبہ یونین کی بحالی کو یقینی بنانا ہو گا۔ طلبہ یونین کی بحالی سے کسی بھی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ طلبہ کا حق مارنے سے پہلے ہزار بار سوچے گی اور طلبہ خود اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہو پائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.