|تحریر: بابر شہزاد|
کچھ دن پہلے مولانہ طارق جمیل کی میڈیا پرسرکاری ”دعا“ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑگئی۔ ایک طرف کھاتے پیتے گھرانوں کے لبرلز اور دوسری طرف مولانا کے حمایتی (اکثریت انکی بھی کھاتے پیتے گھرانوں سے ہی ہے جو اس بحث کا حصہ تھے) ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے نظر آرہے ہیں۔ اس بحث کے اوپر کئی سوالات اُٹھتے ہیں کہ آخر یہ دعا کی ضرورت کیوں کر پیش آئی؟ اس پہ اتنا شور کیوں کر مچا؟ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ جب بھی سرمایہ داری یا اس کی نمائندہ ریاست کسی معاشی بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس طرح کی بے معنی بحث، جس کا زمینی حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، جنم لے لیتی ہے اور ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے؟
ہمیں نظر آتا ہے کہ کرونا کی وبا کا مقابلہ کرنے میں ریاست مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔ ایک طرف تو ریاست ڈاکٹروں ودیگر طبی عملے کو حفاظتی سامان تک باہم نہیں پہچا سکی جس کے باعث تا حال بیسیوں ڈاکٹر، نرسیں اور پیرامیڈکس اس موذی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور جب طبی عملے نے سہولیات کا مطالبہ کیا تو کوئٹہ اور پشاور میں ان پہ شدید جبر کیا گیا اور ان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ وہیں آگہی مہم، لاک ڈاؤن، راشن کی ترسیل، قرنطینہ سنٹروں کا قیام غرض دیگر تمام جگہوں پر مکمل طور پر ریاست کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد سرکار نے واضح طور پر اپنی تمام تر ناکامیوں کی ذمہ داری عوام کی جہالت پر دے ماری اور بارہا وزیرِاعظم و دیگر وزراء، پالتوں میڈیا چینلز، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، دانشوران و ریاستی اشرافیہ یہ پاٹ دہراتے نظر آئے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی مولانا طارق جمیل کی دعا تھی۔ مولانا نے اپنی روح پرور دعا کے اندر ریاستی بیانیے کو خوب برتا، مولانا کا کہنا تھا کہ کرونا جیسی وبا کی وجہ عورتوں کے دن بہ دن مختصر ہوتے لباس، بے حیائی، خیانت، جھوٹ و دیگر ایسی بُرائیاں ہیں۔ مولانا نے گڑگڑا کے وہ پاٹ پڑھا جو دیگر تمام شعبوں کے جغادری اپنے انداز میں دہرا رہے تھے اور اس میں کوئی کسر روا نہ رکھی کہ ریاستی نااہلی پہ پردہ پوشی فرماتے ہوئے سارا جرم عوام کے اپنے سر لاد دیں۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہہ دیا کہ تمام قوم برائیوں اور خباثتوں کا ایوان ہے جبکہ وزیراعظم امانت و صداقت کا ترجمان ہے۔
مولانا کی دعا کے بعد جو ایک شور مچا اس میں ایک طرف ملک کے لبرل حلقوں نے مولانا کے تقدس کا جنازہ اُٹھا دیا وہیں مولانا کے ہمنوا بھی مولانا کے دفاع میں بڑھ چڑھ کے بول رہے ہیں مگر اس سب شور کے اندر جو چیز دب رہی ہے وہ بھوکی، ننگی، بیمار، لاغر عوام کی سسکیاں اور آہیں ہیں۔ جس سے دونوں حلقوں کو لینا دینا نہیں۔ یہاں اگر ہم مولانا کی دعا کا جائزہ لیں تو وہ حبیب جالب کے شعر پہ پورا اترتی ہے
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
مولانا نے کرونا کو خدا کا عذاب کرا دے کر حکمران طبقے کو بری الذمہ کرا دیا ہے جو سراسر منافقت اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ہم اس بات پہ غور کریں تو مولانا یہ کہہ رہے ہیں کہ ہسپتالوں کی قلت، صحت کے بجٹ کی کٹوتیاں، وینٹی لیٹرز کی کمی ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور چونکہ یہ خدا کا عذاب ہے اس لیے ریاست کو صرف دعاؤں پہ زور دینا چاہیے اور کسی قسم کا عملی اقدام بیکار ہے۔ مزید مولانا کا خواتین کے متعلق بیان ان کی اس پدرسرانہ سوچ کی عکاسی ہے جیسے برنارڈ ولی کہا کرتا تھا ”عورت غلاظت کا پلندہ ہے“۔ جبکہ ہمیں نظر آتا ہے سماج کے اندر عورت دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہے جس کو گھریلو تشدد سے لے کر جنسی ہراسانی، غیر مساوی روزگار اور غیر مساوی اجرتوں کا سامنا ہے۔ ایسے ہی صرف مارچ کے مہینے میں خیبر پختون خواہ کے اندر 399 عورتوں کے قتل کی رپورٹیں درج ہوئیں جبکہ اسی دورانیے میں سندھ کے اندر کاروکاری کے دس واقعات رپورٹ ہوئے، گو حقیقی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔ مگر مولانا اور ان کے مخالفیں ان تمام واقعات سے ناآشنا نظر آتے ہیں اور ایک بے معنی بحث کو ہوا دے رہے ہیں۔
البتہ ایک بات جو مولانا نے بالکل ٹھیک کہی وہ تھی میڈیا کے غلیظ کردار کے متعلق، مگر افسوس کہ اگلے ہی دن اس ایک کھری بات پر معافی مانگ لی۔ اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ عدالتیں، پارلیمنٹ، ملٹری اور مذہبی شخصیات بھی سرمایہ دار طبقے کے دلال ہی ہیں۔
درحقیقت کرونا وباء پر قابو نہ پا پانا یہاں کے حکمران طبقے اور عالمی حکمران طبقے کی انتہا درجے کی بے حسی اور منافع خوری کی لالچ کو واضح کرتا ہے۔ کرونا وباء کے دوران بھی صنعتی کام کو جاری رکھا گیا اور ریاستوں نے حتی المقدور لاک ڈاؤن کے معاملے میں تاخیر برتی تاکہ سرمایہ داروں کے کاروباروں کو زک نہ پہنچ سکے۔
کرونا وائرس نے سرمایہ داری کو ایک ناکام معاشی نظام کے طور پر ننگا کر دیا ہے۔ یہ نظام آج عوام کو زندگی تک کی ضمانت دینے سے قاصر ہے۔ جب پاکستان میں ڈاکٹر ماسک مانگ رہے تھے ریاست ماسک اسمگل کرنے میں مصروف تھی، جب لوگ کرونا سے مر رہے تھے صنعتوں میں بھیڑ لگی ہوئی تھی، جب لوگ بھوک سے مر رہے تھے ریاستیں سرمایہ داروں کو اربوں روپے نواز رہی تھیں۔ مگر اس سب صورتحال میں تمام میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا ایک ایسی بحث سے بھرا پڑا تھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی مجرمانہ ناکامی اور محنت کشوں کی حالت زار کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔
ایسے میں ریاست کو فوری طور پر ہیلتھ ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے تمام عوام کو مفت اور معیاری طبی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں اور طبی عملے کو حفاظتی سامان اور سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ تمام نجی ہسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لیا جانا چاہیے۔ تمام غیر ضروری پیداواری صنعتوں کو بند کیا جانا چاہئے اور باقی صنعتوں کے اندر بھی لازمی حفاظتی سامان فوراً مہیا کیا جانا چائیے۔ کرونا کے باعث بحرانی کیفیت میں پیدا ہونے والی بیروزگاری سے نمٹنے کیلئے بیروزگاری الاؤنس جاری کیا جانا چاہیئے اور ریاست کی جانب سے تمام عوام تک گھروں میں مفت راشن پہنچایا جانا چاہیئے۔ اگر ریاست یہ سب نہیں کرتی تو یہ ریاست کی مجرمانہ ناکامی ہے اور اس صورتحال میں کوئی بھی اس مجرمانہ ناکامی کو چھپانے کی کوشش کرے گا یا ان اہم ترین اقدامات کا ذکر نہیں کرے گا تو وہ صرف اور صرف حکمرانوں کا پالتو اور وظیفہ خوار ہوگا اور اس سے بڑھ کے عوام دشمن اور قابلِ نفرت کوئی نہ ہوگا۔