|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (MUST) میں تقریباً ایک ماہ تک تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں، تین ہفتے تک طلبہ نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے یونیورسٹی کا گیٹ بند کیے رکھا۔ طلبہ کی شاندار جدوجہد نے بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور انتظامیہ نے ایک ہفتے میں مسائل کے حل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
یاد رہے کہ طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں جب پہلے ہفتے احتجاج شروع کیا تو انتظامیہ نے غیر سنجیدگی دکھاتے ہوے طلبہ سے کسی قسم کے مزاکرات تک نہ کیے اور انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔احتجاج میں شامل کئی طلبہ کو یونیورسٹی سے ایکسپل کیا گیا اور ہاسٹل میں موجود کئی طلبہ کی الاٹمنٹس تک کینسل کر دیں۔ اسی دوران ایک ہفتے کے لیے یونیورسٹی کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ اور ہاسٹل کے راستے یونیورسٹی سے بند کر دیے گئے گیٹ پہ نئے گارڈز تعینات کر دیے گئے تاکہ طلبہ کو ہراساں کر کے انہیں دوبارہ اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے سے روکا جا سکے۔
چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو طلبہ نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ پرامن طریقے سے مسائل حل کرنے کے لیے انتظامیہ سے بات کی، لیکن انتظامیہ نے ہٹ دھرمی جاری رکھی اور طلباء کی کوئی بات نہیں سنی۔ جس کے بعد طلبہ نے دوبارہ یونیورسٹی کا گیٹ بند کیا۔ جس دوران شعبہ قانون کے آخری سمیسٹر کا ایک طالبعلم زین بھی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے شہید ہوا۔ اس طالبعلم کی موت کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ خود ہے اگر وہ اس سردی کے عالم میں گیٹ کے اوپر نا موجود ہوتا تو اس کی موت واقع نہ ہوتی۔ دوسری طرف یونیورسٹی میں نہ تو ایمبولنس موجود تھی اور نہ ہی فرسٹ ایڈ کی کوئی سہولت۔ اس واقعے کے بعد طلبہ کا غم و غصہ مزید شدت اختیار کر گیا اور اگلے ہی دن ہاسٹل اور یونیورسٹی کے طلبہ نے منظم ہو کر گیٹ کے باہر روڈ پہ احتجاجی دھرنے کی کال دی جس کو منظم کرنے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنوں نے کلیدی کردارکیا۔
اس احتجاج میں نہ صرف طلبہ نے بلکہ محنت کشوں، وکلاء اور سیاسی تنظیموں کے کارکنان نے بھی شرکت کی اور طلبہ کے مطالبات کی حمایت کی، دن بدن دھرنے کی حمایت اور شرکا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس پھیلاؤ سے خوفزدہ ہو کرضلعی انتظامیہ نے طلبہ کے وفد سے ملاقات کی اور یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے سارے مطالبات کے حل کے لیے سات دن کا ٹائم لیا گیا۔ یونیورسٹی نے مسائل کے حل کے لیے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا۔
جس کے بعد طلبہ نے ضلعی اوریونیورسٹی انتظامیہ سے اس شرط پر دھرنا ختم کیا اور گیٹ کھولا کہ اگر سات دن میں مطالبات پر عمل درآمد نہیں ہوا تو وہ دوبارہ احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے۔
اس ساری جدوجہد میں بہرحال طلبہ نے بیشمار اسباق سیکھے ہیں۔ سب سے اہم سبق منظم ہونے اور طلبہ اتحاد کی طاقت کا ہے۔ طلبہ اتحاد کے بلبوتے پر مزاحمت کر کے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ہمیشہ کی طرح اس جدوجہد میں طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عزم کرتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی انتظامیہ کا یہ شیوا رہا کہ کسی طرح مزاحمت اور اتحاد کو توڑے۔ لہٰذا ہمیں جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا۔ عین ممکن ہے انتظامیہ پھر سے مزاکرات سے مکر جائے اور انتقامی کاروئیاں شروع کر دے۔ ہمیں اتحاد کو مزید مظبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرح کشمیر کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد کر رہے ہیں جن میں کوٹلی یونیورسٹی، پونچھ یونیورسٹی، مظفرآباد یونیورسٹی اور مسٹ پلندری کیمپس وغیرہ شامل ہیں۔ طلبہ کو چاہیے کہ طلبہ کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ بنیادوں پر جدوجہد کو منظم کیا جائے۔ اس وقت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پہ پابندی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کے تمام بنیادی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں طلبہ کو اب ناصرف اپنے فوری مسائل کے حل کی جدوجہد کرنا ہو گی بلکہ طلبہ یونین کی بحالی، مفت و معیاری تعلیم کے حصول، ہاسٹلز و ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے حصول، بے روزگاری کے خاتمے، تعلیمی ادروں میں ہراسمنٹ کے مکمل خاتمے اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں سمیت دیگر درپیش مسائل کے حل تک اس جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہو گا تبھی جا کہ ناصرف یونیورسٹی انتظامیہ وریاست کی طلبہ دشمن پالیسیوں کے خلاف لڑا جا سکتا ہے بلکہ انسان دشمن نظام سرمایہ داری کو بھی مات دی جاسکتی ہے۔