|تحریر: مائیکل اینگووی، ترجمہ: علی رضا جلبانی|
ہم نے ماضی میں سوئس برطانوی مصنف اور صحافی یو ہان ہاری کی ایک کتاب”نا معلوم روابط: ڈپریشن کی حقیقی وجوہات کی تلاش، اور غیر متوقع حل“(The Lost Connections: Uncovering the Real Causes of Depression- And the Unexpected Solutions) پر تجزیہ شائع کیا تھا، جس میں وہ معاشرے کی جانب سے ڈپریشن کو دیکھنے کے طریقے کو دوبارہ سے جانچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہاری نے اگرچہ کچھ حد تک جائز تنقید کی ہے، مگر آخری تجزیے میں یہ تنقید مبالغہ آرائی اور یک طرفہ پن پر مشتمل ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ذہنی بیماریوں کا پھیلاؤ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے، اور ایسا ہونا بنتا بھی ہے۔ ذہنی بیماریوں کا اظہار اگرچہ دیگر بیماریوں یا چوٹوں کی طرح واضح نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود یہ متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ ان کے عزیز و اقارب پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ برطانیہ میں تقریباً ہر چار میں سے ایک شخص ہر سال کسی قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ ان میں نوجوان افراد، اور خاص طور پر خواتین، سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ، جس میں ہلکے ڈپریشن کا حساب نہیں شامل، کے مطابق 16 سے 24 سال کی عمر کی خواتین کے بیچ عام ذہنی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا، جو 2000ء میں 21 فیصد سے بڑھ کر 2007ء میں 22.2 فیصد اور 2014ء میں 28.2 فیصد تک پہنچ گیا۔
مزید برآں، 2014ء میں، 16 سے 74 سال کی عمر رکھنے والے افراد میں سے 5.4 فیصد کا کہنا تھا کہ پچھلے 12 مہینوں کے دوران ان میں خودکشی کا رجحان پایا گیا؛ جو 2000ء میں رپورٹ کی گئی 3.8 فیصد تعداد کی نسبت کافی بڑا اضافہ ہے۔ 16 سال کی عمر سے بڑے وہ افراد جنہوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر خود کو مختلف طریقوں سے چوٹ پہنچائی، کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو 2000ء میں 2.4 فیصد، 2007ء میں 3.8 فیصد اور 2014ء میں 6.4 فیصد تھی۔
مینٹل ہیلتھ فاؤنڈیشن کی جانب سے 2017ء میں ہونے والے سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ سروے میں شامل برطانوی افراد میں سے 40 فیصد سے زائد ڈپریشن کا شکار رہے ہیں۔ سروے کے مطابق اس کی سب سے اہم وجوہات گھریلو آمدنی اور معاشی سرگرمی سے متعلق تھیں۔ نتیجتاً، کم ترین گھریلو آمدنی (1200 پاؤنڈ ماہانہ) پر زندگی گزارنے والوں میں سے 73 فیصد زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ذہنی بیماری کا شکار ہوئے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں سب سے زیادہ گھریلو آمدنی (3701پاؤنڈ ماہانہ سے زائد) پر زندگی گزارنے والوں میں یہ تعداد 59 فیصد ہے۔ مزید برآں، بیروزگار افراد میں سے 85 فیصد جبکہ اجرت پر کام کرنے والوں میں سے 66 فیصد ذہنی بیماریوں کا شکار رہے تھے۔
سرمایہ دارانہ معاشرے میں ذہنی دباؤ اور بیگانگی لوگوں کی ذہنی صحت کو شدت سے متاثر کرتی ہے۔ اس طبقاتی معاشرے کے اندر خراب حالاتِ زندگی کے باعث لاکھوں کی تعداد میں ڈپریشن اور ذہنی الجھن کے مسائل پیش آ رہے ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کو ہاری اپنی کتاب اور اس کے بعد لکھے گئے کئی مضامین میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر دواسازی کی بڑی صنعت کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مصیبت زدہ مریضوں کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر وہ دوا سازکمپنیوں اور ماہرینِ طب کے بارے میں کیے گئے اپنے دعوؤں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے جو ثبوت پیش کرتا ہے، وہ عموماً مبالغہ آمیز اور یک طرفہ ہے۔ وہ خود کو ایک ایسے باغی اور انقلابی کے طور پر پیش کرتا ہے جو نظام کے خلاف کھڑا ہوا ہے، مگر دیکھنایہ ہے کہ کیا وہ واقعی میں کچھ نیا کہہ رہا ہے؟
مبالغہ آرائی
دی گارڈین کے ایک مضمون میں ہاری دعویٰ کرتا ہے کہ:
”پوری دنیا میں ڈاکٹروں کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی جاتی کہ وہ مریضوں کو بتائیں کہ ڈپریشن دراصل آپ کے دماغ میں ایک خود رو کیمیائی عدم توازن کا نتیجہ ہے، یہ سیروٹونن کی کمی یا کسی دوسرے کیمیائی مادے کی قدرتی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ آپ کی زندگی کے مختلف واقعات نہیں بلکہ ٹھیک طرح سے کام نہ کرنے والا آپ کا دماغ ہے۔۔۔ فی الحال، ہم ڈپریشن کے شکار لوگوں کو محض ایک ہی آپشن دے رہے ہیں۔“
یہی اس کی دلیل کا مرکزی نقطہ ہے؛ کہ ایک طبی ماڈل جو بنیادی طور پہ فرسودہ ہے، لوگوں کے لیے کوئی حل پیش نہیں کر رہا۔ البتہ، حقیقت یہ ہے کہ، کافی سالوں سے سائنسدانوں کی جانب سے ڈپریشن کی بنیادی وجوہات میں سے ایک زندگی کے واقعات اور صدموں کو مانا جاتا رہا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں وضع کیا گیا بائیو سائیکو سوشل ماڈل (جو سائیکاٹری، ادویات اور سائیکالوجی کے مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہے) ابھی تک علاج کے لیے ایک معیاری طریقے کے طور پر رائج رہا ہے۔ ڈپریشن کی کوئی واحد وجہ نہیں ہوتی، اور ماہرینِ طب مختلف وجوہات کی مناسبت سے مختلف علاج تجویز کرتے ہیں۔ شائع شدہ سائنسی ادب کی اکثریت اسی نقطہء نظر کے حق میں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ منافع پر مبنی دوا سازی کی یہ صنعت زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے اپنی ادویات کو مارکیٹ میں فروغ نہیں دیتی، لیکن یہ بھی سرمایہ داری پر تنقید ہے اور شعبہ صحت پر جو منڈی کے اصولوں کے تحت کام کرتا ہے۔ ہاری سرمایہ داری کے تحت لوگوں کے موجودہ حالاتِ زندگی اور ذہنی بیماریوں کے بیچ تعلق کی درست طور پر شناخت کرتا ہے، اگرچہ وہ سرمایہ داری کا نام لیتے ہوئے کافی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج کی عمومی بوسیدگی کی وجہ سے، محنت کش طبقے کو متاثر کرنے والی ذہنی بیماریوں کی تعداد میں دیوہیکل اضافہ ہوا ہے۔ ان کی وجوہات میں لوگوں کا اپنی زندگی کے اوپر اختیارات کا فقدان، ایک ایسے سماج میں رہنے کا دباؤ جو منافعوں کو اولین ترجیح دیتا ہے، بیگانگی اور طبقاتی سماج کے زیرِ اثر سماجی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کی شامل ہیں۔ سوشلسٹ ایک لمبے عرصے سے بہتر حالاتِ زندگی کے حصول کی لڑائی لڑتے آ رہے ہیں، جنہوں نے درست طور پر ان مسائل کی جڑ سرمایہ داری کو قرار دیا ہے۔
لوگوں کی اکثریت کے لیے ان حالات کو تبدیل کرنے کی شروعات کا، اور ان کو درپیش بیگانگی اور صدموں کے خاتمے کا، واحد راستہ اس نظام کا خاتمہ کرنا ہے جو ان مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈپریشن کے بائیولوجیکل پہلو کا انکار کیا جائے۔ ایک شخص کے دنیا کے بارے میں تاثرات اور مادی دماغ کا باہمی تعامل ہی ڈپریشن کی بائیو لوجیکل بنیادیں فراہم کرتا ہے، دماغ میں ہونے والے کیمیائی عوامل ان تاثرات کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں تاکہ ان کو سمجھا جاسکے۔ متاثر کن بیماریاں، جیسا کہ بائی پولر ڈس آرڈر اور Schizophrenia کی وجوہات ظاہر ہے کہ وہ حالات ہیں جن میں مریض رہ رہے ہوتے ہیں اور دیگر انسانوں کے ساتھ ان کے تعلقات ہوتے ہیں، مگر اس میں دماغ کی کیمیت اور ہارمونز کے اثرات جیسے مادی عناصر بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بعض اوقات یہ ردعمل کسی شخص کے پیدا ہونے سے قبل، اپنی ماں کے پیٹ کے اندر اس کے ساتھ تعلق کے ذریعے، ہی شروع ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل بعض خاندانوں میں طویل مدتی اور بار بار رونما ہونے والی ذہنی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، جس کے پیچھے جینیاتی وجوہات کار فرما ہوتی ہیں۔ مماثل (آئیڈینٹیکل) جڑواں بچوں میں مشترک ذہنی بیماریاں پائی جاتی ہیں، ایک دوسرے سے علیحدہ پرورش کے باوجود۔ وہ جینیات جو بیماریوں کے ممکنات کو متاثر کرتی ہیں، بعض بیماریوں میں ان کی شناخت کر کے ان پر تجزیہ کیا جا چکا ہے۔ مگر ان سب پر ماحولیاتی وجوہات اور دباؤ بھی برابر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ہاری اپنی کتاب “Lost Connections” میں علاج اور طبی مہارت کے حوالے سے بھی مبالغہ آرائی کرتا ہے:
”جواین نے مجھے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کا بچہ مر جائے اور اگلے دن آپ ڈاکٹر سے ملنے جاؤ تو آپ شدید تکلیف کی حالت میں ہوں گی،آپ کی بیماری کی فوری تشخیص ممکن ہوگی۔ اور یوں اس ماڈل کو قائم رکھا جاتا ہے۔ یعنی سوال نامہ پْر کر کے آپ ڈپریشن کے ہونے یا نہ ہونے کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ اگر آپ بعض سوالات کا جواب ہاں میں دیں، آپ کو ذہنی طور پر بیمار قرار دے دیا جائے گا۔ سیاق و سباق کو مدنظر رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ علامات کی پہچان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ نہیں پوچھا جاتا کہ اس شخص کی زندگی میں کیا چل رہا ہے۔“
البتہ گارڈین کے مضمون میں، جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ سخت تنقید کرتا ہے:
”اگر آپ کا بچہ 10 بجے مر گیا، آپ کا ڈاکٹر 10 بج کر 1 منٹ پر آپ کو ذہنی بیمار قرار دے کر فوراً ہی آپ کو دوائیاں دینا شروع کر سکتا ہے۔“
غم کا ردعمل ایک فطری بات ہوتی ہے جسے اکثر ڈپریشن کی علامات کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پیچیدہ مسائل ہوتے ہیں اور اس کی تشخیص ہر مریض کی مناسبت سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے کہ تمام طبی ماہرین ان افراد کو بے رحمانہ طریقے سے دوائیاں دینے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں جو ماتم کی حالت میں ہوتے ہیں، خاص طور پر اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس اور خطرات کو جانتے ہوئے۔ در حقیقت، ماہرین کی جانب سے مریض کو ذہنی بیمار قرار دیے جانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کئی ہفتوں سے ڈپریشن کی علامات کا شکار ہوں اور اس کے بعد ہی ان کا علاج شروع کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 2016ء میں امریکہ کے اندر 18 سال سے زائد عمر کے وہ افراد جو انتہائی ڈپریشن کا شکار ہوئے، ان میں سے تقریباً 44 فیصد کو ہی ماہرینِ طب کی جانب سے علاج اور ادوایات فراہم کی گئیں، اور 13 فیصد افراد کا علاج ادوایات استعمال کیے بغیر کیا گیا۔ اس کے برعکس، محض 6 فیصد کا علاج صرف ادویات کے ذریعے کیا گیا۔ بہرحال، یہاں غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی ڈپریشن کے شکار باقی ماندہ 37 فیصد افراد کو کوئی علاج فراہم نہیں کیا گیا۔ کئی سالوں سے جاری آسٹیریٹی اور شعبہ صحت کی نجکاری کا نتیجہ اسی تباہی کی صورت نکلا ہے۔
مزید برآں، اس بارے میں نسبتاً کم معلومات موجود ہیں کہ یہ ادویات مریضوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں بار بار چیک اپ کی ضرورت پڑے گی، ان کی حالت دوبارہ بگڑنے کا خطرہ موجود رہے گا، یا انہیں ادویات تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی، اور ان سب چیزوں کے لیے اضافی وسائل درکار ہوں گے۔
اینٹی ڈپریسنٹ
اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کی تاثیر، سائیڈ ایفیکٹس، مریضوں کی حالت کا دوبارہ بگڑنا، اور ان ادویات کو تجویز کرنے کی شرط کے اوپر سائنسدان اور طبی محققین کئی سالوں سے شدید بحث مباحثے کرتے رہے ہیں۔ دوا ساز کمپنیوں سمیت آزادانہ تحقیقاتی اداروں نے ذہنی بیماریوں کی ادویات کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ان پر یکے بعد دیگرے کئی تحقیقات کی ہیں۔ ہاری کی کتاب میں ان ادویات کے کار آمد ہونے پر سوال اٹھا کر ان پر ہونے والی جانچ پڑتال کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، مگر اس حوالے سے کوئی بڑا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔
رائل کالج آف سائیکاٹرسٹس کے اندازے کے مطابق ڈپریشن کے لیے اینٹی ڈپریسنٹ استعمال کرنے والے افراد میں 50 سے 65 فیصد میں بہتری دیکھنے کو ملی، جبکہ وقتی سکون دینے والی گولیوں (پلاسیبو) کا استعمال کرنے والوں میں یہ تعداد 25 سے 30 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات سے لوگوں کی اکثریت واقعی میں فائدہ اٹھاتی ہے، چاہے بعض اوقات یہ وقتی سکون ہی کیوں نہ ہو۔
2018ء میں برطانوی شعبہ صحت کی جانب سے 21 اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا تفصیلاً تقابلی جائزہ لیا گیا، جس نے مذکورہ بالا نتائج کی تصدیق کی۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ”شدید ڈپریشن کے شکار بالغ افراد کے لیے پلاسیبو کی نسبت اینٹی ڈپریسنٹ زیادہ مؤثر ہیں۔“
اس حوالے سے اخبار میں شائع کیے گئے خلاصے کے مصنفین سائنسدانوں کی اتفاقِ رائے کے بارے میں لکھتے ہیں:
”دنیا بھر کے بالغ افراد میں شدید ڈپریشن کی بیماری سب سے مشترکہ، تکلیف دہ اور مہنگے علاج والی نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ادوایات کے ذریعے اور ادویات کے بغیر اس کا علاج ممکن ہے؛ البتہ، ناکافی وسائل کے باعث، نفسیاتی علاج کی جگہ زیادہ تر اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو استعمال کیا جاتا ہے۔
علاج شروع کرنے کے بعد حالت دوبارہ بگڑنے کے مسئلے پر، جو ذہنی بیماری کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہے، ہاری چیخ اٹھتا ہے:
”اینٹی ڈپریسنٹ استعمال کرنے والے افراد میں 65 سے 80 فیصد سال کے اندر اندر دوبارہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب میں ان ادویات کا استعمال کرنے کے باوجود ڈپریشن کا شکار رہا تو مجھے لگا کہ مجھ میں ہی کوئی مسئلہ ہوگا۔ مگر میساچوسٹس میں کرسچ نے مجھے وضاحت کی کہ یہ بالکل عام بات ہے۔“
البتہ، یہ مکمل طور پر درست نہیں، جیسا کہ اوپر بیان کردہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ کا استعمال نہ کرنے والے افراد میں حالت دوبارہ بگڑنے کا خطرہ زیادہ پایا جاتا ہے:
ئ٭ امتناعی (مرض کی روک تھام کرنے والے) علاج کے بغیر: پلاسیبو لینے والے افراد میں 100 میں سے تقریباً 50 کی حالت ایک یا دو سالوں کے اندر دوبارہ بگڑ گئی۔
٭ امتناعی علاج کے ساتھ: اینٹی ڈپریسنٹ لینے والے افراد میں 100 میں سے 23 کی حالت ایک یا دو سالوں کے اندر دوبارہ خراب ہوئی۔
مزید تحقیقات سے معلوم پڑتا ہے کہ، معتدل ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کی شکار خواتین میں، علاج کے پہلے 6 مہینوں کے دوران، سی بی ٹی کی نسبت، جو امریکہ میں ڈپریشن کی تھراپی کی سب سے عام قسم ہے، ادویات زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔ البتہ ایک سال کے بعد یہ تفریق برقرار نہیں رہتی اور ختم ہو جاتی ہے۔ شدید ڈپریشن کی شکار خواتین کے بیچ، 6 مہینوں کے دوران علاج کے طریقوں میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا، مگر ایک سال کے بعد سی بی ٹی زیادہ مؤثر تھی۔
اس سے یہ بات مزید ثابت ہو جاتی ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات واقعی میں کام کرتی ہیں اور ایک کار آمد علاج ہے، مگر جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے نشاندہی کی ہے کہ یہ محض تصویر کا ایک رخ ہے۔ طویل مدتی مسائل ادویات کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے، جن کا علاج درست طور پر تھراپی کے ذریعے کرنا چاہیے۔ بد قسمتی سے، محنت کشوں کی اکثریت کے پاس وقت اور پیسوں کی کمی ہوتی ہے، جس کے باعث وہ مناسب علاج تک رسائی سے محروم رہتے ہیں۔
ان تفصیلی جانچ پڑتالوں کے برعکس، ہاری کی کتاب (اس کے اپنے اعتراف کے مطابق) ان لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ڈپریشن کو شکست دی اور اپنی برادری کے اجتماعی اقدامات کی مدد سے اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنایا۔ مثال کے طور کمبوڈیا میں چاول کا کسان جس نے اپنے پیشے تبدیل کیے اور اپنے صدمے پر قابو پا لیا، برلن کا کوٹی ہاؤسنگ پروجیکٹ اور بالٹی مور بائی سائیکل ورکس کے محنت کش جنہوں نے باہمی تعاون کی تنظیم بنائی۔ ان مثالوں کو مسترد کر کے انہیں حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ یہ اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ لوگ اپنی زندگی کے اوپر اختیارات حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ ان مثالوں سے ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے کہ کس طرح سوشلزم کے تحت حالاتِ زندگی کو بہتر بنانے سے ناگزیر طور پر مجموعی طور پہ لوگوں کی ذہنی صحت میں بھی بہتری آئے گی۔ بہرحال، یہ مثالیں بنیادی طور پر ناقص ہیں کیونکہ یہ انتہائی انوکھی مثالیں ہیں، جس سے ہاری کی یہ تجویز درست ثابت نہیں ہو جاتی کہ ہمیں اینٹی ڈپریسنٹ کا استعمال روک دینا چاہیے۔
وہ بات سمیٹتے ہوئے کہتا ہے:
”اس دلیل، کہ کیمیائی اینٹی ڈپریسنٹ زیادہ تر لوگوں کے لیے کار آمد نہیں ہوتی، کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اینٹی ڈپریسنٹ کے خیال کو ترک کرنا چاہیے۔ اس کی بجائے ہمیں بہتر اینٹی ڈپریسنٹ کو تلاش کرنا چاہیے، اور شاید وہ ایسے نہیں ہوں گے جس طرح دوا ساز کمپنیاں چاہتے ہیں کہ ہم انہیں تصور کریں۔“
سرمایہ داری کے تحت علاج کے اجتماعی اور انفرادی طریقے
اپنی محدودیت کے باوجود، ہاری یہ بات کرنے میں صحیح ہوتا ہے کہ منافع خور دوا ساز صنعت اور شعبہ ہائے صحت، خصوصاً امریکہ جیسے ممالک میں، ڈپریشن کے علاج پر تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک طرف، بہت سے ممالک میں کمپنیاں ڈاکٹروں کو اینٹی ڈپریسنٹ تجویز کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ دوسری جانب، تسلسل سے چلے آ رہے آسٹیریٹی کے اقدامات کے باعث تھراپی جیسے دیگر طریقوں کی پیشکش ناممکن ہوتی ہے، یعنی ادویات کو اکثر متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں، جب تک کسی میں خودکشی کا رجحان نہ پایا جائے، سرکاری تھراپی کی باری آتے آتے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جاتا ہے۔ دیگر ممالک میں یہ سروس سرے سے مہیا نہیں کی جاتی۔
ہاری کی کتاب میں ان مسائل کی وجہ سے، جو ہر ملک کے شعبہ صحت میں پائے جاتے ہیں، ڈپریشن کے شکار لوگوں اور اس کے علاج کے تجربے سے گزرنے والے مریضوں کا قریبی جائزہ لیا گیا ہے۔ بجٹ کی کمی، منافعوں میں کمی، عملے کی قلت اور اوقاتِ کار کی مسلسل محدودیت نے شعبہ صحت کی بیخ کنی کر دی ہے۔ ماہرینِ طب کے اوپر کام کا بڑھتا ہوا بوجھ اور ہسپتال کے شعبوں کو دیے گئے نا قابلِ عمل اہداف سے ایسی صورتحال جنم لیتی ہے جس میں ادویات کے ذریعے فوری علاج کو اولین ترجیح دی جاتی ہے، جبکہ ان خصوصی متبادل طریقوں پر عمل درآمد کرنا ممکن نہیں ہوتا جس کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، جیسا کہ سی بی ٹی یا بات چیت کے ذریعے کی جانے والی تھراپی۔
ہمیں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں، ہسپتال کے ٹرسٹوں اور بطورِ کْل سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامیوں پر بات کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ ہاری کی جانب سے کی گئی منظر کشی، جس میں ماہرین اور سائنسدانوں کی پوری صنعت کو سازشوں کے ذریعے اپنا واحد ایجنڈا حاصل کرنے والے گروہ کے طور پر دکھایا گیا ہے، مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔
پوری کتاب میں ایسا لگتا ہے کہ یہ ان لوگوں کو مخاطب کر رہی ہے جو خود کو ماہرینِ طب کے ہاتھوں مسائل میں گھرے ہوئے سمجھتے ہیں۔ ہاری ذہنی بیماریوں کے علاج کا تلاش کرتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات کے بارے میں تفصیل سے بات کرتا ہے۔ کئی لوگ ذاتی طور پر ڈپریشن کا نشانہ بنے ہیں، براہِ راست خود یا اپنے عزیزوں کے ذریعے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاری کا تجزیہ شاید بعض لوگوں کو درست لگے؛ شیطانی دوا ساز کمپنیاں جعلی ادویات کو فروغ دے رہی ہیں جبکہ اس کی بجائے علاج کا ایک اجتماعی اور متبادل طریقہ موجود ہے۔ اپنی کتاب اور بے شمار مضامین میں، وہ بارہا معروف تصورات اور خیالات کو اس طرح پیش کرتا ہے جیسے وہ نئے اور انقلابی خیالات ہوں، جن کو وہ پہلی مرتبہ سامنے لا کر جدید سائنس کے منہ پر دے مار رہا ہے۔ یہ سچ نہیں ہے، کیونکہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس سے پہلے کہا جا چکا ہے اور سائنسدانوں نے اس کے اوپر شدید بحث مباحثے کیے ہیں۔ ماہرینِ طب کو درپیش بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سائنس کو سرمایہ داری کی مسلط کردہ حدود میں بروئے کار نہیں لا سکتے، اس حقیقت کے بارے میں ہاری بات کرنے سے کتراتا ہے اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر نہیں کرتا، کیونکہ اس نے بہت سے لبرل تجزیہ نگاروں اور مداحوں (بشمول ہیلری کلنٹن) کی خوشنودی بھی کرنی ہوتی ہے۔
ہاری زندگی کے واقعات کی اہمیت کے حوالے سے جو دلائل دیتا ہے، وہ بلاشبہ درست ہیں۔ البتہ، یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے، کیونکہ ڈپریشن لوگوں کے دماغ میں مختلف طریقوں سے پروان چڑھتا ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق ان کی زندگی بہتر بنانے اور ان کی تکالیف مٹانے میں اینٹی ڈپریسنٹ کافی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔ اس کتاب میں اینٹی ڈپریسنٹ پر یک طرفہ تنقید کی وجہ سے بڑا خطرہ ہے کہ لوگ ان ماہرینِ طب پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں جو دنیا بھر میں بے شمار افراد کی مدد کرتے رہے ہیں۔
اگر ہاری کے ارادے اچھے بھی ہوں، اس کے دلائل مضبوط ثبوتوں پر مبنی نہیں ہیں اور اس کے دعوے مبالغہ آمیز ہیں۔ یہ ایک اہم موضوع ہے جس سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ وہ پچھلی نصف صدی کی سائنسی تحقیق کو لا پرواہی سے مسترد کرتا ہے اور خود کو ایک غیر دقیانوسی شخص کے طور پر پیش کرتا ہے، اگر سچ کہا جائے تو یہ ایک خطرناک حرکت ہے۔ بلاشبہ ڈپریشن کی بنیادیں مادی دنیا اور طبقاتی سماج کے تحت رونما ہونے والے ذہنی دباؤ اور صدموں میں موجود ہیں۔ مگر یہ چیزیں مریضوں کے دماغ پر مادی شکل میں اثر انداز ہوتی ہیں اور اکثر اوقات ان کا علاج ادویات کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، البتہ اس قسم کے علاج تھراپی جیسے دیگر طریقوں کی مدد سے زیادہ مؤثر بنتے ہیں۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر قائم اس نظام کو ہٹا کر، اور حسبِ ضرورت پیداوار کی بنیاد پر سماج قائم کر کے، ذہنی بیماریوں کے مسائل حل ہو پائیں گے اور علاج کی بہت سی محدودیت کا خاتمہ ہو سکے گا۔ البتہ، ذہنی صحت کو متاثر کرنے والی بیماریوں کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوگا۔ دماغ کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے 100 ٹریلین سائی نیپٹک کنکشنز پر ہم نے ابھی پوری طرح عبور حاصل نہیں کیا ہے۔ دماغ انسانی جسم کا سب سے پیچیدہ اور دلچسپ عضو ہے، اور ہمارا شعور بذاتِ خود محض ہمارے دماغ کا اپنے آپ اور اپنے مقصد کے بارے میں علم حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس کے استعمال کا ایک متوازن طریقہ یہ ہوگا کہ علمِ کیمیا اور انسانی ماحول کے دوہرے اور باہمی کرداروں کو سمجھا جائے۔