|رپورٹ: زاہدہ وزیر|
پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کی طرف سے 13 اپریل 2019ء کو مشال خان کی دوسری برسی کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب ہال میں ایک شاندار سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف تعلیمی اداروں سے طلباء و طالبات نے بھرپور شرکت کی۔ اسکے علاوہ شہر میں موجود ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور وکلاء بھی پروگرام میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
صدارت کے فرائض ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے رہنما رزاق غورزنگ نے سر انجام دیے۔جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پی وائی اے بلوچستان کے صوبائی صدر خالد مندوخیل نے ادا کیے۔
پروگرام کے آغاز میں مشال خان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور اسکے ساتھ ہی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ مقررین میں پی وائی اے کے مرکزی جنرل سیکرٹری ولی اولسپال، وکلاء برادری سے ایڈوکیٹ حبیب اللہ، بالشویک گروپ آف سٹوڈنٹ کی نمائندہ نصرت افغانی، پی وائی اے کے صوبائی جنرل سیکرٹری امیر آیاز، پی وائی اے کی صوبائی نائب صدر سیمہ خان اور ریلوے محنت کش یونین سے انیس کشمیری شامل تھے۔
مقررین نے مشال خان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشال خان کی یاد میں اسکی دوسری برسی کے موقع پر اکٹھا ہونے کا مقصد واضح ہے کہ ہمیں نہ تو شخصیات کے بت بنا کر انکی پوجا کرنی ہے، نہ ہمیں صرف ماتم کرنے پر اکتفا کرنا ہے اور نہ ہی ہمیں مختلف این جی اوز کی طرح مشال خان کی جدوجہد کو بیچ کر اسکے نام پر کاروبار کرناہے بلکہ مشال خان کی اصل جدوجہد کو بنیاد بنا کر ہم اس ملک کے اندر نوجوانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد و منظم کرنا ہے اور یہ ہی وہ طاقت تھی جس کی کمی مشال کے قتل کا سبب بھی بنی تھی، کہ وہ اکیلا اس ظلم اور جبر کے خلاف لڑنے نکل پڑا۔ پی وائی اے کے صوبائی جنرل سیکرٹری امیر آیاز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ (پورے بلوچستان کے اندر بھی) طلبہ انہی مسائل کا سامنا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کے خلاف مشال خان نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے اندر آواز اٹھائی اور جسکی پاداش میں انتظامیہ اور نام نہاد طلبہ تنظیموں کی ملی بھگت سے توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اس قتل میں مذہبی اور نام نہاد سیکولر طلبہ تنظیمیں بشمول پشتون ایس ایف پیش پیش تھے۔
پی وائی اے کی نائب صدر سیمہ خان نے کہا کہ آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ مشال خان کی جدوجہد کو تمام تعلیمی اداروں میں آگے بڑھائینگے اور طلبہ کو اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے منظم کرتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی کی کمپئین کو تیز کرینگے اور یہی ایک راستہ مشال خان کے قتل کا اصل بدلہ ہوسکتا ہے۔
پروگرام میں مشال خان کے والد محترم اقبال لالا کو بھی شرکت کرنے کی دعوت دی گئی تھی جو کہ چند مجبوریوں کی وجہ سے تو حاضر نہ ہو سکے لیکن اس نے ٹیلیفون لائن پر پروگرام میں اپنا خطاب کیا اور پی وائی اے بلوچستان کی ٹیم کو داد دی کہ انہوں نے مشال خان کی اصل پہچان اور جدوجہد کو زندہ رکھا ہے۔
اس کے بعد پی وائی اے کے صوبائی پریس سیکرٹری نے مشال خان کی جدوجہد اور اسکے بنیادی مطالبات کے ساتھ چند مزید طلبہ حقوق کے مطالبات کا اضافہ کرکے ایک قرارداد شرکاء کے سامنے پیش کی جس کو اکثریتی رائے سے پاس کیا گیا۔
قرارداد کے نقاط مندرجہ ذیل تھے:
1۔ مشال خان کے تمام قاتلوں کو پھانسی دی جائے۔
2۔ ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔
3۔ ہر سطح پرغیر طبقاتی نظام تعلیم رائج کیا جائے۔
4۔ تعلیمی اداروں کے اندر خواتین کی ہراسمنٹ کو بند کیا جائے اور انہیں برابر کے حقوق دیے جائیں۔
5۔ تمام تعلیمی اداروں سے سکیورٹی فورسز کا انخلا کیا جائے۔
6۔ طلبہ کو مفت ہاسٹلز، ٹرانسپورٹ، لائبریریاں، سپورٹس گراونڈ اور تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
7۔ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور تمام اداروں میں اسکی بحالی کی کمپئین کو تیز کیا جائے۔
آخر میں ریڈ ورکر فرنٹ کی نمائندگی پررزاق غوزنگ نے صدارتی خطاب کیا اور پروگرام میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔