|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 3 اگست کو کھائیگلہ (کشمیر) میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انقعاد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشینز پر مشتمل تھاـ پہلا سیشن عالمی اور پاکستان تناظر تھا جس پر لیڈ اف کامریڈ عبید زبیر نے دی ـ عبید نے عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بحث کا آغاز کیا اور کہا کہ 2008 کے بحران نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو جڑوں سے ہلا کے رکھ دیا جس کا سیاسی اظہار ہمیں عالمی سطح پر ہونے والی ہڑتالوں مظاہروں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کے صدر بنے سے لے کر ہندوستان میں نریندر مودی تک اور پھر امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز عالمی سطح پر اس کے اثرات سرمایہ داری کے بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے جو کے ایک نئے بحران کو جنم دے گا اور مزید کہا کے مشرق وسطی کی صورتحال بھی کافی زیادہ حراب ہے حاص کر تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد سعودی معشیت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے سعودی بادشاہ نے سعودیہ کو لبرلائز کرنے کا ڈراہ شروع کر دیا ہے جس میں عیاشی کے اڈے کھول دیے ہیں تاکہ سعودی شہزادے زیادہ دولت یہاں پہ ہی خرچ کریں دوسری طرف یمن کے ساتھ جنگ کا سارا بوجھ محنت کشوں کے کندھے پہ ڈالا جا رہا ہے اسی طرح مشرق وسطی کی دیگر ریاستوں میں بھی بحران بڑھ رہا ہے مزید بات کرتے ہوے کامریڈ نے پاکستان کی موجودہ صورتہحال پر تفصیل سے بات کی اور کہا کہ الیکشن کے ڈرامے میں عام عوام محض تماشائی ہی رہی۔ حکمران طبقے کی آپسی لڑائی عوام کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔ محنت کش طبقہ تبدیلی کے ان روایتی نعروں سے تنگ آ چکا ہے اور اس سارے گھن چکر کا منظم اظہار ملکی اور عالمی سطح پر جلد کرے گاـ اس کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز کا آغاز ہوا جس میں کامریڈ قمر، گلباز، اسد کبیر اور دیگر کامریڈز نے سوالات کی روشنی میں بحث میں حصہ لیا اس کے بعد کامریڈ عبید نے پہلے سیشن کا سم آپ کیا جس میں انقلابی پارٹی کی تعمیر پر زور دیتے ہوے کہا محنت کشوں پرہونے والے ظلم اور جبر کیخلاف خطے کے تمام محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کرنے کی ضرورت ہے اس جدوجہد سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے حقیقی انسانی سماج قاہم کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا سیشن ریاست اور انقلاب پر تھا جس پر کامریڈ عبید ذوالفقار کی لیڈ آف تھی۔ کامریڈ نے بحث کا آغاز ریاست کے تاریحی ارتقاء سے کیا اور بتایا کے کس طرح قدیم کمیونسٹ سماج کے بعد جب غلام داری کا آغاز ہوا تو باقائدہ ریاست کی ضرورت پیش آئی۔ آگر آج کی جدید ریاست کو دیکھا جائے جو پہلے کھبی وجود نہیں رکھتی تھی لیکن عمومی طور پر اس کا مقصد وہی ہے جو پرانے طبقاتی سماجوں اس کا رہا ہے یعنی کہ حکمران طبقے کی حکمرانی کا دفاع کرنا۔ ریاست کسی بھی طور پر سماج پر باہر سے مسلط نہیں ہوتی بلکہ وہ اسی سماج کا حصہ ہوتی لیکن خود کو سماج سے بیگانہ کرتی ہے۔ ریاست اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ سماج (طبقاتی) خود اپنے نا قابل حل تضادات میں پھنس گیا ہے اس کے بعد دیگر سوالات پہ مارکسزم کے نقطہ نظر پہ بحث کو آگہے بڑایا اس کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشن ہوئے جس میں کامریڈ غفار، گلباز، خالد بابر نے بحث کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد دوسرے سیشن کا سم آپ یاسر ارشاد نے کیا۔ سم اپ میں یاسر ارشاد نے ریاست کے سوال کو اج کے عہد کے مطابق مزید تفصیل سے بیان کیا۔سکول کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔