|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ|
پروگریسو یوتھ الائنس سندھ کے زیرِ اہتمام مختلف یونیورسٹیوں میں بعنوان ”چی گویرا، انقلابی فکر کی للکار“ لیکچر پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں چی گویرا کے انقلابی نظریات اور جدوجہد پر بات کی گئی۔
جامشورو
لیکچر پروگرامز کے اس سلسلے کا آغاز سندھ یونیورسٹی سے ہوا جہاں 12 اکتوبر، بروز بدھ ایک شاندار لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبوں کے طلبہ نے شرکت کی۔پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ یونیورسٹی کے آرگنائزر مجید پنھور نے پروگرام کو چئیر کیا اورتفصیلی گفتگو کامریڈ سرمد سیال نے کی۔ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سرمد نے کہا کہ چی گویرا، مزاحمت کی علامت ہے انھوں نے جرات سے کیوبن انقلاب کی قیادت کی اور وہاں کے ظالم حکمرانوں کو تخت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس جدوجہد میں ایک کلیدی کردار جہاں چی گویرا، فیڈل کاسترو اور ان کے ساتھیوں کا تھا وہیں عوامی احتجاجوں اور محنت کشوں کی ہڑتالوں نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ چی گویرا کی اس جدوجہد کے پیچھے اس کے انقلا بی نظریات کار فرما تھے۔ وہ معروض تھا جب اس نے لاطینی امریکہ میں لوگوں کو بھوک سے سسکتے ہوئے مرتے دیکھا تو وہ ان کے وجوہات کی تلاش میں نکلا اور نتیجتاً اس کی واقفیت سوشلزم کے انقلابی نظریات سے ہوئی اور اس نے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔
سرمد کی بات کے اختتام پر شرکاء نے سوالات کیے۔ پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ یونیورسٹی کے آرگنائزر مجید پنھور نے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہد میں سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے اور آئے روز آبادی کی اکثریت کو، غربت، بھوک، بیماری اور لاعلاجی کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ ان مشکل حالات میں نوجوانوں کے پاس چی گویرا اور دوسرے عظیم انقلابیوں کے نظریات اور ان کی جدوجہد کا راستہ اپنا نے کے علاوہ کوئی اورراستہ نہیں ہے۔ لہذا ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جہاں عالمی سطح پر رائج الوقت نظام انسانیت کو تباہ کررہا ہے تو دوسری جانب اس کیخلاف بغاوت بھی ابھر رہی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس جدوجہد کو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پوری دنیا میں سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جائے۔ انسانی تہذیب کو بچانے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔
ٹنڈوجام
جامشورو کے بعد 13 آکتوبر کو سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں لیکچر پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس کو چئیر سندھ زرعی یونیورسٹی کے آرگنائزر مرتضی نے کیا۔ پروگرام کے آغاز میں مرتضی نے پروگریسو یوتھ الائنس کا پس منظر، تعارف اور منشور بیان کرتے ہوئے طلبہ کو پی وائی اے کا حصہ بننے کی دعوت دی۔
تعارف کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس سندھ کے آرگنائزر مجید پنھور نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے چی گویرا کے انقلابی نظریات کی آج کی عہد میں اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم جس انسانی سماج میں زندہ ہیں اس کی سب سے بڑی حقیقت جو حکمرانوں کیلئے باعث خوف ہے وہ یہ ہے کہ یورپ سے لیکر افغانستان و ایران تک عوامی مزاحمت سر اٹھا رہی ہے۔ لہذا ایسے میں نوجوان انقلابی نظریات کیطرف مدعو کررہے ہیں۔ نوجوان اور محنت کش موجودہ نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ چی گویرا بھی بالکل اسی طرح سوشلزم کے نظریات سے واقف ہوا تھااور ان نظریات کی بنا پر اس نے امریکی سامراج کے خلاف ایک شاندار جدوجہد کی۔ اور آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ عوام کی بغاوتوں کو سوشلزم کے نظریات سے لیس کیا جائے۔
مجید پنھور کی بات کے بات کے بعد شرکاء نے سوالات کیے۔ اختتام پر بحث کو سمیٹتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے آرگنائزر علی عیسی نے کہا کہ آج چی گویرا کی شخصیت کے اوپر پروگرام کرنے کامقصد چی گویرا کے نظریات اور اس کی انقلابی جدوجہد کو سمجھنا ہے۔ چی گویرا سماج میں موجود بھوک، بدحالی اور غربت اور جبر جیسے مسائل کے حقیقی حل کی تلاش میں نکلا تھا جس کے سبب اس کی مارکسزم کے انقلابی نظریات سے شناسائی ہوئی۔ چی گویرا کے مطابق مارکسزم ایک حقیقت ہے۔ کیوبن انقلاب کے بعد چی گویرا نے بولیویا کا رخ کیا اور وہاں بھی انقلابی جدوجہد جاری رکھی تاکہ کیوبا جیسا انقلاب دوسرے مما لک میں بھی برپا کیا جائے جو مارکسزم کی عالمگیریت کا ثبوت ہے۔ موجودہ نظام یعنی سرمایہ داری آج اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور اب اس کے پاس عوام کو بھوک اور ذلت دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں عوام اس کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور یہی وہ وقت ہے کہ عوام کے اس غصے کو سائنسی بنیادوں پر منظم کیا جائے اور مارکسزم کے انقابی نظریات کی بنیاد پر سماج کی از سرِ نو تشکیل کی جائے۔
خیرپور میرس
ٹنڈوجام کے بعد 18 اکتوبر کو شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور میرس میں لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جس کو چئیر پروگریسو یوتھ الائنس، شاھ لطیف یونیورسٹی کے آرگنائزر عمار نے کیااور علی عیسی نے تٖصیلی بات کی۔
علی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے چی گویرا کے انقلابی نظریات کے آج کی عہد میں اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج پوری دنیا شدید بحران کی زد میں ہے۔ پوری دنیا میں کسی سیاسی پارٹی یا کسی معیشت دان کے پاس اس بحران سے نکلنے ک کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ہر جگہ حکمران طبقے کی مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہیں۔ایسے میں عوام کے پاس اپنے سلگتے مسائل کے حل کیلئے مزاحمت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے اور پوری دنیا میں عوامی تحریکوں کی شکل میں اس کا اظہار بھی ہورہا ہے۔ اور یہی بات حکمرانوں کو تشویش میں ڈال رہی ہے اور وہ عوام کی تحریکو ں سے خوفزدہ ہیں۔ ایسے میں نوجوانوں کو اس سماج کی انقلابی بنیادوں پرتبدیلی کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا اور وہ انقلابی نظریات کی تلاش میں ہیں۔ ایسے میں چی گویرا اور دوسرے عظیم انقلابیوں کے نظریات اور ان کی جدوجہد نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔اور نوجوان ان کی جدوجہد کا راستہ اپنانے کی طرف جارہے ہیں اس لیے چی گویرا کے نظریات کو سمجھنا آج ہر نوجوان کا فرض بنتا ہے تاکہ اس گلے سڑے سماج کو بدلا جائے اور ایک حقیقی انسانی معاشرہ قائم کیا جائے۔
علی عیسی کی بات کے بعد شرکاء نے سوالات کیے۔اور اس کے بعد علی عیسی نے بات کا اختتا م کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے پاس ایک ہی رستہ ہے کہ سوشلزم کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر نوجوانو ں اور محنت کشوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم بنائی جائے اور سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کا قیام کیا جائے تاکہ ایک حقیقی انسانی سماج قائم کیا جاسکے اور بھوک، بیماری، ظلم و جبر اور بربریت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جا ئے۔ اور ختتام پر علی عیسی نے تمام شرکاء کو پروگریسو یوتھ الائنس کی انقلابی جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دی۔