لاہور: امیر الدین میڈیکل کالج کے طلبہ کو درپیش مسائل۔۔۔کیسے لڑا جائے؟

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

امیرالدین میڈیکل کالج لاہور جس کا اپنا کوئی سرکاری ہاسٹل نہیں ہے، بلکہ طلبہ سے ہاسٹل فیس وصول کر کے انہیں 17 کلومیٹر دور پرائیویٹ ہاسٹل میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ وہاں معیاری رہائش اورمیس کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے، اس کے خلاف طلبہ میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔ طلبہ کے بنیادی مطالبات میں کالج کے قریب نئے ہاسٹل کی تعمیر، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ہاسٹل میس کی بحالی، سٹڈی رومز کی فراہمی، لفٹ کی مرمت، روزانہ کی بنیاد پر ہاسٹل کی صفائی کو یقینی بنانا اور جنرٹر کی فراہمی شامل ہیں۔ کالج انتظامیہ کی طرف سے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے طلبہ کو ڈرا دھمکا اور ہراساں کر کے طلبہ کو خاموش کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے تمام مطالبات کی بھر پورحمایت کرتا ہے اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں طلبہ کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا رہنے کا عزم کرتا ہے۔ اور ہم انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

سالہا سال کی محنت کے بعد لوئر مڈل کلاس اور محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ جب میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ معیاری سہولیات کی توقع رکھتے ہیں تاکہ بہتر ماحول میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں، مگر امیر الدین میڈیکل کالج کے طلبہ کو رہائش اور روٹی جیسی بنیادی سہولیات سے ہی محروم رکھا جا رہا ہے۔ کالج جیل روڈ پر واقع ہے، وہیں پر ہاسٹل ہونے کی بجائے طلبہ کو نشتر کالونی فیروزپور روڈ کے قریب ایک پلازہ میں رکھا گیا ہے، جو کہ کالج سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ فیروزپور اور کینال روڈ پر ٹریفک کی بھیڑ کی وجہ سے طلبہ کا کافی وقت ضائع ہوتا ہے اورٹرانسپورٹ کی بھی مناسب سہولت موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جس پلازہ پر طلبہ رہائش پذیر ہیں وہ کسی جیل سے کم نہیں۔ پلازے کے چوتھے فلور پر طلباء کو رکھا گیا ہے، جس میں کل 18 فلیٹ ہیں اور ایک فلیٹ میں 6 طلباء کے رہنے کی جگہ موجود ہے، لیکن پہلے ہی ہر فلیٹ میں 6 سے زیادیہ طلبہ رہنے پر مجبورتھے، لیکن اس سال داخلہ لینے والے مزید 70 طلباء کو بھی اسی فلور پہ شفٹ کر دیا گیا ہے، طلبہ لاؤنجز میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اوریہ فلور ناقابل برداشت اورغیر انسانی قیام گاہ بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ اوپر پانچھویں فلور پر اتنے ہی فلیٹز میں تقریباََ 150 طالبات رہائش پزیر ہیں۔

ہاسٹل پلازے کی چوتھے اور پانچھویں فلور پر ہے، نیچے کافی ساری دکانیں ہیں۔ 24 گھنٹے شور کی وجہ سے پڑھائی کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاََ امتحانات کے دنوں میں شدید ذہنی اضطراب کا باعث بنتا ہے۔ سالانہ فیس میں طلبہ سے میس چارجز لینے کے باوجود بھی طلبہ کو میس نہیں دیا جا رہا ہے۔ اس بے تحاشا مہنگائی میں جہاں ایک وقت کا کھانا حاصل کرنا مشکل ہے وہاں فیس دینے کے باوجود دو سے تین کلو میٹر سفر کر کے طلبہ کو باہر سے مہنگے داموں کھانا خریدنا پڑ رہا ہے۔ ہاسٹل میں کچن، گیس اور صاف پانی تک میسر نہیں، اتنے طلبہ کے لیے چوتھے فلور پہ صرف ایک واٹر کولر ہے، جوکہ لمبے عرصے سے بند پڑا ہے۔ اس کے علاوہ چھت سے پانی ٹپکتا رہتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے عمارت کتنی کمزور ہے جو کبھی بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے مگر ذمہ داران کو پرواہ نہیں۔ کمروں میں موجود پنکھوں کی حالت بھی بد ترین ہے، نیا پنکھا لگوانے یا کسی قسم کی مرمت کرانے کے لیے بھی طلبہ کو اپنی جیبوں سے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ ہاسٹل میں رہائشی طلبہ کے لیے کوئی لان، اوپن ایریا اور گراونڈ نہیں جہاں کوئی کھیل کھیلا جا سکے۔ اس بدترین صورتحال کی وجہ سے گزشتہ دنوں ایک غیر ملکی طالبہ ایڈمیشن کینسل کرا کے واپس چلی گئی۔

منظم جدوجہد کے ذریعے ہی مسائل حل کروائے جا سکتے ہیں

جب کالج کے طلبہ نے ان مسائل کے خلاف کمپین کا آغاز کیا تو ہراسمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا، کل رات کو اچانک ہاسٹل میں بجلی کی تاریں کاٹ دی گئیں۔ طلبہ کے احتجاج کی وجہ سے دس منٹ بعد پھر سے بجلی بحال کر دی گئی۔ یہ واقعہ کالج پرنسپل کے ہاسٹل وزٹ اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم کی طرف سے مسائل کے حل کی یقین دہانی کے بعد ہوا! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالج انتظامیہ کیا سوچ رہی ہے۔ بار بار دفاتر کے چکر لگانے پر بہانے بنا کر طلبہ کو واپس بھیج دیا جاتا ہے۔پرنسپل، وائس چانسلر اور گورنر سے ملاقاتوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوئے۔ ذمہ داران تک مسائل پہنچانا ضروری ہے، مگر کیا جانوروں جیسا بدترین سلوک روا رکھنے والے انتظامیہ اور اداروں میں پہلے کبھی رحم دلی آئی؟ وہ ہمارے آواز اٹھانے سے پہلے ہی مسائل حل کرتے توبنیادی حق مانگنے پرطلبہ کو ہراساں کیوں کر رہے ہیں؟ طلبہ کے بنیادی جمہوری حق طلبہ یونین پر پابندی لگانے اور طلبہ کو غیر سیاسی اور غیر منظم کرنے میں ملوث ریاستی اداروں سے توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یہ تب ہماری بات مانیں گے جب ہم ایکتا قائم کرتے ہوئے منظم ہوں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو منظم ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہاسٹل میں رہنے والے طلباء اور طالبات کے مطالبات کے ساتھ باقی مقامی طلبہ کے مطالبات کو بھی شامل کرنا ہوگا اور اتحاد کی طاقت کے بلبوتے پر مزاحمت کرنی ہوگی۔ اتحاد کے ذریعے ہی انتظامیہ اور حکمران طبقے کے حملوں کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ طلبہ کو فوری طور پر ہر کلاس سے منتخب شدہ نمائندوں پر مبنی کالج کی سطح پر منتخب شدہ طلبہ کمیٹی تشکیل دینا ہوگی، اور احتجاج کی جانب بڑھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ پمفلٹ چھاپ بنا کر دوسرے تعلیمی اداروں کے طلبہ سے یکجہتی کی اپیل کرنی ہوگی۔ اسی کمیٹی کو دوسرے تعلیمی اداروں کی منتخب شدہ کمیٹیوں سے جوڑ کر لاہور کی سطح کی منتخب شدہ طلبہ کمیٹی بنانی ہوگی۔ اور پھر صوبے اور ملک بھر کی اسی طرح کی طلبہ کی منتخب شدہ کمیٹیوں کے ذریعے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا ہوگا۔

اس طرح طلبہ کو درپیش دیگر مسائل، ہراسمنٹ، طلبہ یونین کی عاید پابندی، فیسوں میں اضافے، تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیوں، تعلیمی ادروں کی نجکاری، طبقاتی نظام تعلیم اور بے روزگاری وغیرہ کے خلاف بھی لڑا جاسکتا ہے۔ آنے والے عرصے میں پاکستان کا معاشی، سیاسی اور ریاستی بحران مزید شدت اختیار کرے گا، کیونکہ یہ بحران صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ در اصل یہ موجودہ نظام یعنی سرمایہ داری کا نامیاتی بحران ہے۔ لہٰذا اس نظام کو ہی اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس لیے ان کمیٹیوں کو ملک کے محنت کشوں اور کسانوں سے جوڑ کر تمام مسائل کی بنیادی وجہ منافع پر مبنی سرمایہ دارنہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ نقلاب برپا کرنا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.