|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
17 اکتوبر کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کشمیر کی کال پر پورے کشمیر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طلبہ ایکشن کمیٹیوں کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جس میں کشمیر بھر کے تمام تر سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں سے طلبا اور طالبات نے شدید سردی اور بارش کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔
ریاستی اداروں کی طرف سے اس احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں سے طلبہ کو ڈرانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود 17 اکتوبر کو پورے کشمیر کے ہر ایک چھوٹے بڑے شہر میں طلبہ کے شاندار احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے۔ جن میں راولاکوٹ، کھائیگلہ، علی سوجل، ہجیرہ، عباسپور، کوٹلی، نکیال، باغ، تراڑکھل، سہنسہ، مظفرآباد، تھوراڑ، بلوچ، حویلی، پلندری، ڈڈیال، میرپور، دھیرکوٹ اور دیگر شہروں میں طلبہ ایکشن کمیٹیوں کے زیر اہتمام پرجوش احتجاج منظم کیے گئے۔
ان احتجاجوں کے بنیادی مطالبات میں بجلی بلوں کے خاتمے، طلبہ یونین کی بحالی اور طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کا خاتمہ شامل تھے۔ حکومت نے طلبہ کو 17 اکتوبر کے مظاہروں سے باز رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جن میں سب سے پہلے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں امتحانات شروع کروائے گئے اور انتظامیہ کی طرف سے 10 اکتوبر کو ایک نوٹیفیکیشن سامنے آیا، جس میں یہ لکھا تھا کہ اگر کسی بھی نجی تعلیمی ادارے نے اپنے سٹوڈنٹس کو مظاہرے میں شمولیت کی اجازت دی تو متعلقہ تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔ اور اگر کسی سرکاری تعلیمی ادارے کے طلبہ مظاہروں میں شامل ہوئے تو متعلقہ ادارے کے اساتذہ کو نوکریوں سے معطل کیا جائے گا۔
کشمیر میں پچھلے 5 ماہ سے بجلی کے بلوں کے خاتمے کی تحریک جاری ہے۔ عوام نے 3 ماہ سے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے ہر گاؤں، قصبے، شہر، ضلع اور پورے کشمیر کی سطح پر خود کو منظم کر لیا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت شروع میں بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافے کے خلاف ہزاروں لوگوں کے احتجاجوں کا انعقاد کیا گیا پھر یہ تحریک بڑھتی گئی اور بجلی کے بل ادا نہ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ کروڑوں کی مالیت کے ہزاروں بل احتجاج کر کے جلائے گئے، اس تحریک نے حکومت کے ایوان لرزا کے رکھ دیے۔
اس تحریک کے پورے پاکستان میں پھیلنے سے خوفزدہ ہو کر ریاست نے اس پر ستمبر کے آخری ہفتے میں کریک ڈاؤن کر دیا۔ لاٹھی چارج، گرفتاریاں اور احتجاجی کیمپ اکھاڑے گئے۔ اس سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہو گیا اور یہ تحریک بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔ 5 اکتوبر کو کشمیر بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ یہ ہڑتال کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ اس کے بعد 10 اکتوبر کو خواتین اور بچوں کے احتجاجوں کا انعقاد کیا گیا۔
10 اکتوبر کا دن نام نہاد آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے غیر معمولی دن تھا جب کشمیر کی محنت کش خواتین نے اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اسی تسلسل میں 17 اکتوبر کو طلبہ کے احتجاج منظم کیے گئے۔
17اکتوبر کے احتجاج کی تیاریوں کے سلسلے میں تعلیمی اداروں میں طلبہ نے ایکشن کمیٹیاں بنائیں اور طلبہ کو ان کمیٹیوں کے ذریعے متحد کیا گیا۔ درحقیقت مختلف وجوحات کی بنا پر کشمیر میں طلبہ سیاست ایک لمبے عرصے سے زوال کا شکار ہے اور کسی طلبہ تنظیم کی طلبہ میں کوئی خاص بنیادیں موجودہ نہیں ہیں۔ لہٰذا طلبہ ایکشن کمیٹیوں کا تعلیمی اداروں میں بننا بنیادی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ پرانے فرسودہ پروگراموں اور نعروں کے گرد طلبہ کا یقین نہیں جیتا جا سکتا۔ کیونکہ اس وقت طلبہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں اور بہتر مستقبل اور بہتر معیار زندگی کی تلاش میں ہیں۔ طلبہ اور نوجوان خود کو درپیش مسائل سے مکمل نجات کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان تمام روایتی طلبہ تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے پاس طلبہ کے مسائل کے حل کا کوئی واضح لائح عمل سرے سے موجود نہیں۔ اس لیے طلبہ نے تمام تر روایتی طلبہ تنظیموں کو مسترد کر دیا ہے۔
موجودہ تحریک جزوی یا کلی طور پر کامیابی حاصل کرتی ہے یا کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتی دونوں صورتوں میں کشمیر کی طلبہ تحریک ایک نئے اور معیاری طور پر بلند اور لڑاکا مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس وقت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر عائد پابندی، فیسوں میں اضافے، ہراسمنٹ، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کے فقدان اور دیگر مسائل پر بحثوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب یہ عمل برق رفتاری سے آگے کی جانب پیش رفت بھی کرے گا اور مزید تعلیمی اداروں تک وسعت اختیار کرتا جائے گا۔
اس لیے طلبہ کو درپیش تمام مسائل اور بالعموم کشمیر کے عوام کے مسائل کے حل کی جدوجہد کو درست سائنسی نظریات سے لیس کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ لہٰذا موجودہ مسائل اور بحران کی وجوہات کو جاننا اور ان سے نجات کے درست نظریے یعنی سوشلزم کے انقلابی نظریات کو سمجھنا ناگزیر بن چکا ہے۔
پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح کشمیر میں بھی تعلیمی نظام بالکل زمین بوس ہو چکا ہے۔ جہاں ایک طرف مہنگی تعلیم کے باعث محنت کش گھرانوں سے وابسطہ بچوں کی اکثریت تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہے تو دوسری طرف اپنے پیٹ کاٹ کر، قرضے لے کر اور جمع پونجی خرچ کر کے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی روزگار دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں کشمیر بھر میں لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں اور شدید ترین ڈپریشن کی زد میں ہیں۔ یا پھر کچھ نوجوان اپنا مال متاع بیچ کر بیرون ملک اپنے گھر بار سے ہزاروں کلو میٹر دور تپتے ریگستانوں میں انتہائی سستے داموں اپنی قوت محنت بیچ رہے ہیں۔ لہٰذا بجلی کے بلوں کے خاتمے کے ساتھ اب فیسوں کے مکمل خاتمے کا بھی مطالبہ کرنا ہوگا۔ مفت تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں۔
بے روزگاری، لاعلاجی، جہالت اور بھوک ننگ کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی معاشی بحران ہے۔ اس وقت حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی عیاشوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ جب تک موجودہ امیر اور غریب پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے، محنت کشوں کا معیار زندگی مزید بد تر ہوتا جائے گا۔ اس لیے محنت کش عوام، طلبہ اور نوجوانوں کے دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس پورے ملک میں سوشلزم کے انقلابی نظریات کے تحت طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کر رہا ہے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بن کر موجودہ انسان دشمن نظام سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب پرپا کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ سوشلزم ہی مفت تعلیم، مفت بجلی، مفت علاج اور روزگار کا ضامن ہے۔
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں!
سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے!