|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|
میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ) میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا فائنل ائیر کا طالب علم سمید اعجاز چند روز پہلے جنڈیس کے سبب فوت ہوگیا۔ یہ طبعی موت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یونیورسٹی اور ہاسٹل انتظامیہ کی نا اہلی کے باعث سمید اعجاز کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے مسلسل جامعہ مسٹ میں طلبہ پینے کے جراثیم بھرے پانی کے اور خوراک کے سبب یرقان، جنڈیس، اور دیگر ایسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ صرف یونیورسٹی ہاسٹل میں اب تک 30 سے زائد کیس آ چکے ہیں جبکہ یونیورسٹی میں مجموعی کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ یہ حقیقت جامعہ کی انتظامیہ کے تعلیم دشمن رویے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
اب یونیورسٹی کے آفیشل پیجز سے اس طالب علم کی مغفرت کے لیے منافقت سے بھرپور پوسٹیں شیئرکی جا رہی ہیں اور اس دکھاوے کا سبب دکھ اور ہمدردی نہیں بلکہ اپنی نا اہلی کو چھپانا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مزید طلبہ کو اس قسم کی منافقت سے خاموش نہیں کروایا جا سکتا، طلبہ انتظامیہ کا اصل تعلیم دشمن چہرہ لمبے عرصے سے دیکھ رہے ہیں، جہاں کبھی بنیادی مسائل کے حل کے لیے احتجاج کے دوران طلبہ شہید ہوتے ہیں اور کبھی صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت کے نہ ملنے کی وجہ سے۔
پاکستان کا سرکاری تعلیمی بجٹ دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا جہاں تمام تعلیمی اداروں کی کرپٹ انتظامیہ طلبہ کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہی ہے وہیں حکومت اور ایچ ای سی بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ تعلیم کے معیار پہ بات کی جائے تو وہ بس رٹا سسٹم (جی پی اے) رکھا گیا ہے، طلبہ کومحض نمبروں کے پیچھے لگا کر انہیں ایک صحت مند جسم سے ڈپریشن کا مریض بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی تمام تخلیقی صلاحیتوں کو کند کرنا، یہ ادارے اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
جہاں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں وہاں دیگر سہولیات کی کس قدر کمی ہو گی، اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن مجال ہے انتظامیہ کو کوئی فرق پڑ رہا ہو اور انہیں پڑے گا بھی کیوں؟ ان کے لیے طلبہ اور انکی تعلیم کی بھلا کیا اہمیت؟ وہ تو بس کرپشن کرنے، طلبہ کو ہراساں کرنے اور جھوٹ بولنے کے لیے ہی محنت کرتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں جب کوئی طالب علم کسی بیماری کا شکار ہوتا ہے اور وہ کسی طرح اپنا علاج کروا کر یونیورسٹی آنے کی کوشش کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کی حاضری شارٹ کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ بیمار تھا، تو اسے چاہیے کہ سمسٹر ہی فریز کروا لے۔ دوسری جانب طلبہ کا کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہیں ہے جہاں وہ یکجا ہو کر اس سب ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔
ضیالباطل نے طلبہ یونین پہ پابندی لگا کر طلبہ سے یہ حق بھی چھین لیا تھا اور آج دہائیاں گزرنے کے بعد بھی کوئی سیاسی پارٹی طلبہ یونین بحال نہیں کرنا چاہتی (جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سب سیاسی پارٹیاں عوام اور طلبہ دشمن ہی ہیں)۔ اسی طرح جمعیت اور اے ٹی آئی جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جو طلبہ کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں علاقائی یونینز یا کونسلز کو ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ پہ مسلط کیا گیا ہے تاکہ طلبہ مصنوعی بنیادوں پہ تقسیم رہیں اور اپنے ان تمام بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد نا کر سکیں۔
ایسے میں طلبہ کو خود آگے بڑھ کر اپنے ڈیپارٹمنٹس سے لے کر یونیورسٹی لیول پہ طلبہ کی کمیٹیاں بنانی ہوں گی جس میں رنگ نسل علاقے سے بالا تر ہوتے ہوئے حقیقی مسائل کی حل کی جدوجہد کرنا ہو گی۔ اور یہی کمیٹیاں ہی ہو ں گی کہ جن سے فیسوں میں اضافے، جنسی ہراسانی اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو بڑھایا جاسکتا ہے۔