| رپورٹ: میثم عباس |
جمعیت کی غنڈہ گردی تعلیمی اداروں میں ایک لمبے وقت سے چل رہی ہے۔ طلبہ کو کسی بھی قسم کی ہم نصابی، غیر نصابی اور صحت مند ثقافتی سرگرمیوں میں شمولیت پر نہ صرف ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی سٹوڈنٹ ردعمل کا اظہار کرے تو اسے شدید جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ہی واقعہ 11 دسمبر کو اس وقت پیش آیا جب پنجاب یونیورسٹی جنڈر اسٹڈیز کے طلبا و طالبات لیکچر کے بعد ڈیپارٹمنٹ کے لان میں بیٹھے تھے۔ جمعیت کے مسلح غنڈوں نے طلبا پر دھاوا بول دیا اور وہاں بیٹھے طلبہ کو نہ صرف تشدد کر کے زخمی کیا بلکہ ڈیپارٹمنٹ میں توڑ پھوڑ کر کے باقی طلبہ کو ہراساں کیا اور مزید خوف کی فضا قائم کرنے کے لئے جمعیت کی نعرہ بازی کرتے رہے۔ جیسے ہی یہ خبر باقی طلبہ تک پہنچی تو ایک لمبے عرصے سے اس غنڈہ گردی اور یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی سے تنگ طلبہ مختلف ڈیپارٹمنٹس سے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ غصے سے لبریز نوجوانوں کے اس ہجوم نے یونیورسٹی کے چکر لگانا شروع کر دیے اور جمعیت کا جو پالتو غنڈا ہاتھ آتا گیا اس کی دھلائی بھی ساتھ ہی ساتھ چلتی رہی۔ اسی دوران ہاسٹل کی کینٹین پر بیٹھے کچھ نہتے طلبہ پر نقاب پوش افراد نے حملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ مشتعل طلبہ کا ہجوم مزید بپھر گیا۔ طلبہ جمعیت اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی بھی کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ یہ ہجوم ایک غیر منظم احتجاج کی شکل اختیار کرتا گیا جس میں مختلف علاقائی کونسلز، تنظیمیں اور عام طلبہ شامل ہوتے گئے۔ طلبہ کا غصہ دیکھتے ہوئے باقی جماعتی غنڈوں نے یونیورسٹی سے بھاگ کر راہ فرار اختیار کی اور جو چند ایک یونیورسٹی میں پھنس گئے ان کو ہمیشہ کی طرح پولیس نے گرفتاری کے نام پر مشتعل طلبہ سے تحفظ فراہم کیا۔ اس کے باوجود طلبہ تقریباً پورا دن احتجاج کرتے رہے اور یونیورسٹی کے سامنے کی سڑک بھی بلاک کی۔
جمعیت کی غنڈہ گردی سارا سال ہی یونیورسٹی میں جاری رہتی ہے اور اگر طلبہ کسی ادبی یا ثقافتی سرگرمی کو منظم کرنے کی کوشش کریں تو انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایسے میں یونیورسٹی انتظامیہ ان عناصر کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی بجائے جائزہ اور تفتیشی کمیٹیوں کے نام پر متاثرہ طلبہ کو ہی ذہنی اذیت میں مبتلا کئے رکھتی ہے۔ ان دہشت گرد اور بنیاد پرست عناصر کے خلاف بارہا اٹھنے والی طلبہ کی آوازوں اور احتجاجوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طلبہ میں ان عناصر کی کوئی بنیادیں موجود نہیں ہیں اورطلبہ ان عناصر کو رد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود تعلیمی اداروں میں ان عناصر کی موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ طلبہ کا ان عناصر سے چھٹکارا اور دیگر درپیش مسائل کا حل ایک مثبت اور فعال طلبہ یونین کی بحالی میں ہی ممکن ہے۔
One Comment