بہاولپور: یونیورسٹی سیکیورٹی کی غنڈہ گردی کیخلاف سینکڑوں طلبہ کا احتجاج

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

لوگ بے تاب کے آواز فلک تک پہنچے 
حکم حاکم کہ یہاں دم بھی نہ مارے کوئی

ماضی قریب میں تعلیمی اداروں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کو اس قدر بڑھا دیا گیا کہ یہ ادارے جیلوں کا منظر پیش کرنے لگے اوریہ سیکیورٹی کے مقصد پر مامور اہلکاران ان اداروں کے طلبہ پر اپنی دہشت جمانے میں مصروف عمل ہو گئے۔ آئے روز چیکنگ کے نام پر طلبہ کی تذلیل کی جانے لگی، طلبہ یونین کے تصور کو ہی گناہ بنا دیا گیا۔ تعلیمی اداروں کے سیکیورٹی اہلکاروں کی یہ تمام تر غنڈہ گردی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور میں انتہائی شدت کیساتھ جاری ہے کہ جہاں پر ان اہلکاروں کی جانب سے طلبہ کی بلا روک ٹوک تضحیک کی جا سکتی تھی۔ گروپ کی صورت میں طلبہ کے بیٹھنے پر یہاں تک کہ سالگرہ منانے پر بھی پابندی ہے مگر اس سب کیخلاف طلبہ میں غم و غصہ جمع ہو رہاتھا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 11مئی کو پیش آیا جس نے ایک لمبے عرصے سے طلبہ کے اندر پنپنے والے غم و غصے کو سطح پر لے آیا۔ 

11مئی 2018ء بروز جمعہ کو گیٹ پر طاہر، شہباز اور نصیر بابر نامی اہلکاروں کی طرف سے ایک یونیورسٹی طالبعلم کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیاجس نے تمام طلبہ کے اندر اشتعال کی لہر دوڑا دی۔اس اشتعال کو ٹھنڈا کرنے کیلئے وائس چانسلر کی طرف سے تینوں گارڈز کی معطلی کی جھوٹی خبر پھیلائی گئی ۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے 14مئی بروز سوموار کو یونیورسٹی کے صدر دروازے پر ایک احتجاج کا فیصلہ کیا۔ احتجاج کو ملتوی کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں مگر سب بے سود ثابت ہوئیں۔

14مئی کی صبح یونیورسٹی ایک جیل کا منظر پیش کر رہی تھی جس میں ہر طرف سیکیورٹی اہلکار کھڑے تھے۔ طلبہ کے بستوں کی تلاشی لے کر انہیں اندر آنے کی اجازت دی گئی اور احتجاج کے مقررہ وقت پر یونیورسٹی انتظامیہ نے اکثر ڈیپارٹمنٹس کو اندر سے تالے لگا دیے تا کہ طلبہ احتجاج میں شرکت نہ کر پائیں۔ مگر اس کے باوجود کچھ ہی دیر میں اتنے طلبہ اکٹھے ہوگئے کہ پوری یونیورسٹی طلبہ کے ایک ہی نعرے سے گونج اٹھی ’’طلبہ نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘‘۔ ان طلبہ نے خوف و ہراس کا دامن چاک کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کے تمام دھمکی آمیز بیانات کو پاؤں تلے روند دیا اور دیگر تمام ڈیپارٹمنٹس کا رخ کیا اور تمام ڈیپارٹمنٹس میں کلاسوں کو منسوخ کروا کے طلبہ کو اپنے ساتھ لے آئے اور پورا کارواں ’’لے کے رہیں گے آزادی۔۔ہے حق ہمارا آزادی۔۔سیکورٹی کی غنڈہ گردی سے آزادی۔۔مہنگی تعلیم سے آزادی‘‘، کی گونج میں مین گیٹ کی طرف مارچ کرنے لگا۔مگر انتظامیہ نے اس پر امن احتجاج میں رخنہ اندازی سے اب بھی اجتناب نہ کیا۔تمام ڈی ایس اے وہاں موجود تھے اور انہوں نے طلبہ کو ڈرانے دھمکانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔طلبہ کو یہ کہا گیا کہ انہیں ڈگریاں نہیں دی جائیں گی، مزید یہ بھی کہ آج آپ کا دن ہے کر لو جو کرنا ہے کل ہمارا دن ہوگا پھر دیکھنا ہم کیا کرتے ہیں۔دو طلبہ پر تشدد کے واقعات بھی رونما ہوئے۔مگر اسکے باوجود طلبہ نے امن کا دامن چھوٹنے نہ دیا اور اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے مئی کی اس گرم دوپہر میں جھلستے رہے اور دیدنی جوش و جزبے کا مظاہرہ کرتے رہے۔

انتظامیہ کے ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود احتجاج جاری رہا۔اس کے بعد جب انتظامیہ کی جانب سے ہر حربہ ناکام ہوگیا تو بالآخر اپنی نام نہاد پالتو تنظیم انجمن طلباء اسلام کی قیادت سے رابطہ کیا اور احتجاج ختم کرانے کا ذمہ انہیں سونپا گیا۔چونکہ طلبہ منظم نہیں تھے لہٰذا اے ٹی آئی کی قیادت نے خود ہی بند کمرے میں مذاکرات کر کے انتظامیہ کو تین دن کی مہلت دینے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان پر اے ٹی آئی کے بہت سارے کارکن بذات خود اس فیصلے کے خلاف تھے اور احتجاج جاری رکھنے کے حق میں تھے۔ اسی طرح طلبہ بھی اس فیصلے کے حق میں بالکل بھی نہیں تھے اور اس موقع پر پی وائے اے کے کارکنان نے اس فیصلے خلاف کے خلاف نعرے بازی بھی کی جس پر اے ٹی آئی کے غنڈوں کی جانب سے کھلی دھمکیاں دی گئیں۔ مگرطلبہ کے منظم نہ ہونے اور کسی بھی واضح قیادت کے فقدان کی وجہ سے اے ٹی آئی کی جانب سے مین گیٹ کھلوا دیا گیا اور اس طرح شدید ترین گرمی میں تقریبا 5گھنٹے تک جاری رہنے والا طلبہ کا یہ احتجاج بالآخر ختم کر دیا گیا۔ مگر احتجاج کے اختتام پر بھی طلبہ کے اندر بے چینی اور غصہ واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ 

تین دنوں کا وقت لینے کا مطلب واضح طور پر طلبہ کے مطالبات نہ ماننا اور طلبہ کو دھوکا دینا ہے۔ تین دن کے بعد رمضان کا مہینہ شروع ہو جائیگا اور روزوں کی وجہ سے یقیناًاحتجاج کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ انتظامیہ کی واضح چال تھی۔ اس سب کے باوجود یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جیسے انتہائی گھٹن کے ماحول والی یونیورسٹی میں طلبہ کا اتنی بڑی تعداد میں نکلنا جہاں ایک طرف طلبہ کی بہت بڑی کامیابی ہے وہیں دوسری طرف طلبہ کے اندر موجود غصے کا واضح اظہار بھی ہے۔ 

طلبہ کو اس احتجاج سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب انتظامیہ کی جانب سے شدید جوابی کاروائی کی جائے گی کیونکہ طلبہ نے زمینی خداؤں کو للکارا ہے اور وہ اپنی خدائی کسی صورت بھی نہیں کھونا چاہتے۔ طلبہ اس لڑائی کو صرف اور صرف اتحاد کی صورت میں ہی لڑ بھی سکتے ہیں اور جیت بھی سکتے ہیں ۔ مگر اس لڑائی کیلئے انہیں منظم ہونا ہوگا۔منظم ہونے کیلئے انہیں یونیورسٹی کے تمام ڈیپارٹمنٹس سے طلبہ کو منتخب کرتے ہوئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سٹوڈنٹس کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کمیٹی میں ہر ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ شامل ہوں اور سب کی مشاورت سے آگے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ مستقبل میں انتظامیہ کی جانب کیے جانے والے جبر سے مقابلہ کرنے کا یہی واحد رستہ ہے۔

آگے بڑھو دوستو!

سچے جذبوں کی قسم آخری فتح ہماری ہوگی!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.