|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس کوئٹہ|
بلوچستان کے اندر سیاست کو مجموعی طور پر اور خاص طور پر طلبہ سیاست کو ایک لمبے عرصے سے ختم کرنے کا عمل زوروشور سے جاری ہے۔ تعلیمی اداروں میں کالجز سے لیکر یونیورسٹیوں تک جن میں بلوچستان یونیورسٹی قابل ذکر ہے، طلبہ کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے، اپنے مسائل کا ادراک حاصل کرنے اور طلبہ سیاست میں شامل ہونے سے ہر صورت میں دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور طلبہ کی کسی بھی سیاسی جدوجہد اور اتحاد کو کاٹنے کیلئے انتظامیہ اور حکمرانوں کی طرف سے ہر ناجائز حربہ اپنایا جاتا ہے۔
دوسری طرف سویت یونین کے انہدام کے بعد اور خصوصی طور پر آج سرمایہ دارانہ نظام کے شدید بحران کے نتیجے میں تمام روایتی سیاست اور موجودہ سیاسی قیادتیں نظریاتی اور سیاسی زوال کا شکار ہوکر ختم ہوگئیں اور اسکے ساتھ ہی طلبہ سیاست میں بھی روایتی تنظیمیں انقلابی نظریات سے خالی ہوکر طلبہ کے مسائل سے دور اور بیگانہ ہوگئیں، جبکہ طلبہ بھی نتیجتا سطح کے اوپر نظر آنے والی اس طرح کی سیاسی تنظیموں سے دور اور متنفر ہوتے چلے گئے اور یہی ساری صورتحال اس موڑ پر پہنچ گئی کہ طلبہ سیاست ہی سے بیگانہ ہوگئے اور ساتھ ہی اپنے حالات اور اجتماعی مسائل کو سائنسی اور سیاسی بنیادوں پر سمجھنے اور حل کرنے سے بھی قاصر ہوگئے۔
اس وقت پورے ملک کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان یونیورسٹی تک طلباء کو درپیش بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں ناقابل برداشت فیسیں، ہاسٹلز اور مفت رہائش کی عدم موجودگی، طلباء کیلئے باقاعدہ ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی اور طلباء کو سیکورٹی کے نام پر خوفزدہ کرنے کا عمل شامل ہیں۔ ان تمام مسائل کی جڑیں آج سرمایہ داری کے معاشی بحران کے اندر پوشیدہ ہیں جس نے پوری دنیا کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
حکمران طبقے کو اس بحران کا سارا بوجھ عوام اور طلبہ پر ڈالنا ہوتا ہے اور اپنے سرمائے کو بڑھانے کیلئے آئے روز بنیادی سہولیات کو عوام سے چھیننے، ٹیکس اور کٹوتیاں بڑھانے اور تعلیم کو مہنگا کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ ایسے میں ان تمام مسائل کی وجہ ایک شخص کی بدعنوانی یا کچھ مخصوص افراد کی چوری اور کرپشن ٹھہرانا انتہائی بے بنیاد بات ہوسکتی ہے۔ اس طرح کرپشن، بد کرداری، اقرباپروری، بےبنیاد بھرتیاں، ہراسمنٹ اور چوریاں صرف علامات ہیں جبکہ بیماری اس کرپشن، بدعنوانی اور استحصال پر مبنی یہ نظام اور اسکا بحران ہے۔
طلبہ کو کسی تعلیمی ادارے میں کسی کرپٹ شخص کا متبادل کوئی گنگا میں نہایا ہوا پاکباز، معثوم اور فرشتہ صفت شخص نہیں ملے گا، جب تک نظام استحصالی ہے۔ جبکہ اس سب کی وجہ ایک شخص کو ٹھہرا کر اس نظام کی غلاظت اور گند کو چھپایا جائے گا اور ایسی بے بنیاد جدوجہد طلبہ حقوق کی لڑائی کے بجائے ایک ذاتی اور شخصی لڑائی کے مترادف ہو سکتی ہے۔
اس صورتحال میں طلبہ کو پورے ملک اور صوبے میں خود کو نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے اور اپنے مسائل اور حالات کو ایک مسلسل عمل کے ذریعے سائنسی بنیادوں پر سمجھتے ہوئے اپنی ایک نمائندہ طاقت بنانے کیلئے تمام اداروں میں اپنے جمہوری پلیٹ فارم، یعنی طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا جو طلبہ کے لئے مفت تعلیم، ٹرانسپورٹ، رہائش اور روزگار کا حق چھین سکے اور ساتھ ہی طلبہ کو تعلیمی اداروں میں نام نہاد سیکورٹی کے نام پر جبر سے نجات دلاتے ہوئے ایک آزادانہ تعلیمی فضا مہیا کرسکے۔