|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
یونیورسٹی کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز، جن کا بظاہر مقصد یونیورسٹی کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانا ہے، خود دہشت گرد بن چکے۔ آئے روز کسی نہ کسی طالب علم کو مار پیٹ کا نشانہ بنانا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ طلبہ کو خوف و ہراس کرنا، ذرا ذرا سے بات پر تشدد کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سیکیورٹی طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے میں بھی پیش پیش ہے جس پر کبھی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
گذشتہ روز بھی یونیورسٹی سیکیورٹی کی دن دیہاڑے دہشت گردی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا جب گاڑی کا پارکنگ ٹوکن نہ ہونے پر شعبہ سائیکالوجی کے ایک طالب علم کے خلاف ظلم کی انتہا کردی گئی۔ سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں مذکورہ طالب علم کو گھونسوں، مکوں اور بیلٹ سے بیدردی سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ مارنے والوں میں سکیورٹی اہلکار طاہر اور شہباز اور نصیر بابر شامل ہیں۔ ان دہشت گردی کی اس کھلے عام دہشت گردی کا یہ واقعہ بھی آئے روز ہونے والے واقعات کی طرح کبھی منظر عام پر نہ آتا مگر موقع پر موجود ایک جرات مند طالبعلم نے رسک لیتے ہوئے ظلم و ستم کے اس بھیانک واقعے کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔
یونیورسٹی کی اسی سیکیورٹی کے ہاتھوں طالبات کو بلیک میل کر تے ہوئے جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات عروج پر ہیں۔انتظامیہ اور اساتذہ بھی اس مکروہ دھندے میں شامل ہیں جن کے خلاف کبھی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
پروگریسو یوتھ الائنس سیکیورٹی کے نام پر اس دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ذمہ داران کو فوری برطرف کرتے ہوئے کاروائی کی جائے۔ سانحہ اے پی ایس کا بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو فوجی بیرکوں میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ سب کچھ تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے محفوظ بنانے کی آڑ میں کیا گیا لیکن اس کا حقیقی مقصد طلبہ میں خوف و ہراس پھیلانا اور جبر کا نشانہ بنانا تھا تاکہ ان کو فیسوں میں اضافے،ہاسٹلوں اور ٹرانسپورٹ ، ہراسمنٹ اور دیگر مسائل کے خلاف آواز اٹھانے اور منظم ہونے سے روکا جاسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف اور صرف طلبہ کی منتخب کمیٹیاں ہی یونیورسٹی کی سیکیورٹی کو صحیح معنوں میں یقینی بنا سکتی ہیں۔ اس لیے پروگریسو یوتھ الائنس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ تعلیمی اداروں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طلبہ یونینز بحال کی جائیں۔ طلبہ یونینز ہی ہراسمنٹ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف موثراقدامات کرسکتی ہیں۔ اس لئے طلبہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ طلبہ یونین کی بحالی کے لئے جدوجہد کا حصہ بنیں۔