|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد|
مورخہ 23 آکتوبر بروز اتوار پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد کی جانب سے خانہ بدوش رائیٹرز کیفے میں روسی انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی کے پیش کردہ ”نظریہ انقلابِ مسلسل“ کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا گیا۔ سمینار میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ اور ترقی پسند سیاسی کارکنان نے شرکت کی۔
سمینار میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض سرمد چانڈیو نے ادا کیے۔ اس کے بعد حبیب جالب کی مشہور زمانہ انقلابی نظم”میں نہیں جانتا“ گانے کیلئے مرتضیٰ کو مدعو کیا گیا۔
سمینار کے آغاز میں پی وائی اے سندھ کے آرگنائزر مجید پنہور نے سب کو خوش آمدید کہتے ہوئے سمینار کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ مجید کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کے خلاف محنت کشوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہاہے۔ ہر ملک میں احتجاجی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ اس بحران کی کیفیت میں حکمران طبقے کی جانب سے سارا بوجھ محنت کشوں اور عوام پر لادا جا رہا ہے۔ اس وقت حکمران طبقہ اپنی لڑائیوں میں مصروف ہے کوئی بھی عوام کی نمائندگی نہیں کر رہا، کسی کے پاس اس کا حل موجود نہیں ہے۔ ایسے میں پروگریسو یوتھ الائنس پورے ملک میں مارکسزم کے انقلابی نظریات کا پرچار کر ہا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی یہ سیمینار بھی ہے۔پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ مارکسزم کے انقلابی نظریات پر مبنی ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں انقلابی تحریکیں ذائل ہو رہی ہیں۔ ہمارا فرض ہے انقلابی پارٹی کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔
تعارف کے بعد موضوع پر بحث کا آغاز کامریڈ پارس نواز کیا۔ کامریڈ پارس نواز نے اپنی بات کے آغاز میں سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی کردار اور سوشلسٹ نظام کے عالمگیر ہونے کی ناگزیریت پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد نظریہ انقلاب مسلسل کے بنیادی خد و خال بیان کیے۔
کامریڈ پارس نواز کی تفصیلی بات کے بعد عالمی مارکسی رحجان کے رہنما پارس جان نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ناہموار اور مشترکہ ترقی کے قانون پر روشنی ڈالی۔ پارس کا کہنا تھا کہ ایسے ممالک جہاں سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار ارتقا کے وہ تمام مراحل (قومی آزادی، سرمایہ دارانہ جمہوریت کا قیام، جاگیردارانہ قدروں کا اختتام وغیرہ) طے نہیں کرسکا جو اس نے ترقی یافتہ دنیا میں طے کیے ہیں، اب ان تمام مراحل کو سوشلزم کے ذریعے ہی عبور کیا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور یہ پسماندہ دنیا میں جمہوری انقلاب اس طرح کی تمام منزلوں کے حصول کی اہلیت کھو چکا ہے۔ اس لیے پسماندہ خطوں میں ان تمام منازل کا حصول بھی صرف سوشلزم کے تحت ہی ممکن ہے۔