|تحریر: عرفان منصور|
پاکستان میں آج شعبہ تعلیم مکمل طور پر منہدم ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کی بوسیدگی کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کے اڑھائی کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں زندگی میں کبھی بنیادی تعلیمی اداروں کا منہ تک نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ مگر اعلیٰ تعلیم تو آج ویسے ہی غیر متعلقہ (Irrelevant) ہو چکی ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم کا مقصد ڈگری لے کر نوکری حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ علم حاصل کرنا، اور آج ڈگری کے بعد بھی نوکری نہیں مل رہی، لہٰذا اب پاکستان میں یونیورسٹیوں کے وجود کا جواز ہی ختم ہو چکا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی وجہ سے اب بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں سے آن لائن تعلیم بھی با آسانی لی جا سکتی ہے جو کہ مقامی تباہ شدہ نظام تعلیم کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ پاکستان کی تقریباً 60 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس میں سے صرف نو فیصد نوجوان ہیں جو کہ یونیورسٹی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔
اس مضمون میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد پاکستان کا تعلیمی نظام کیسا ہو گا؟ سوشلسٹ معاشرے کے اندر تعلیم کس طرح سے بھرپور ہو گی یا پھر تعلیم میں کیا کیا نئے تجربات ممکن ہو سکتے ہیں، ان کے بارے میں آج کے اس سرمایہ دارانہ سماج میں مکمل پلان کرنا تو اگرچہ مشکل ہے بہرحال اس مدعے پر بات ضرور ہو سکتی ہے کہ سرمایہ داری کے اندر موجود پاکستان کے جو تعلیمی مسائل ہیں وہ کس طرح سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت تعلیم کے لیے مختص بجٹ جی ڈی پی کا 1.7 فیصد ہے جو کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے مختص بجٹ سے بھی کہیں زیادہ کم ہے اور اسی سبب سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی قلیل تعداد نظر آتی ہے اور اس خلا سے فائدہ اٹھانے کے لئے نجی تعلیمی مافیاز موجود ہیں جو ہر سال اربوں روپے کما رہے ہیں۔
ایک سوشلسٹ انقلاب کے بعد جب تمام ذرائع پیداوار (صنعتیں، جاگیریں، بینک وغیرہ) کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے گا اور ان تمام وسائل کا استعمال انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے کیا جائے گا تو پاکستان کا تعلیمی بجٹ کہیں زیادہ کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں ہر بچے کو سکول کی راہ دکھائی جا سکتی ہے اور اسے مفت تعلیم دی جا سکتی ہے اسی کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بڑی تعداد میں کالجز اور یونیورسٹیوں کا قیام کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے ہر خواہش مند نوجوان کو یونیورسٹی تعلیم سے بہرہ ور کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ کیا یہ سب سرمایہ دارانہ نظام میں نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لئے سوشلسٹ انقلاب کیوں ضروری ہے؟
یہی تو مدعا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے بحران کے دور میں عوام سے ہر بنیادی سہولت چھینتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی کچھ حد تک بہتری کے دور میں بھی تعلیم کو عام کرنے کی کچھ خاص کاوش نہیں کی گئی ہے اور بحران کے دور میں تو ریاست سب کچھ چھینتی چلی جا رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر تعلیم روز بروز مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں کسی صورت کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ اس میں کٹوتی ہو رہی ہے، کیوں؟
کیونکہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست حکمران طبقے کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نہ کہ عوام کے لئے۔ اور نظام کے بحران کے دور میں وہ تمام وسائل کو سرمایہ داروں کے مفادات اور منافعوں کے لیے مکمل طور پر وقف کر دیتی ہے۔ اسی تناظر میں آپ صرف تعلیم کے ہی نہیں بلکہ صحت اور دیگر شعبہ جات کے بحرانوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔
سوشلسٹ انقلاب کے بعد بنیادی تبدیلی تو یہ ہو گی کہ سوشلسٹ معاشرے میں تعلیم کا مقصد سرمایہ داروں کی طرز پر منافع کے حصول کے لیے محض فنی تعلیم مہیا کرنا نہیں ہو گا بلکہ لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہو گا اس لیے جہاں ایک طرف تعلیمی اداروں کی تعداد میں بڑا اضافہ کیا جائے گا وہیں دوسری طرف تعلیمی نصاب کو بھی جدید اور انسانی خطوط پر استوار کیا جائے گا۔
ایک سوشلسٹ سماج میں تعلیم اور روزگار مہیا کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہو گی اور تمام تر تعلیمی اخراجات کی ذمہ دار ریاست ہو گی۔ اب ذرا اندازہ لگائیں کہ جب ان اقدامات کے ذریعے سے کیریئر بنانے کی نفسیات کا خاتمہ کر دیا جائے گا تو پڑھنے والے نوجوانوں پر سے کتنا بڑا خوف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹل جائے گا۔ اس ایک قدم سے موجودہ پاکستانی سماج میں مختلف اداروں کے انٹری ٹیسٹوں کے لیے کھولی جانے والی نجی اکیڈمیوں، ان ٹیسٹوں کے لیے چھاپی جانے والی لاکھوں کتابوں کے کاروبار اور اس پورے مافیا کا خاتمہ ممکن ہے۔
جب اس کیرئیر ازم کی نفسیات کا خاتمہ ہو جائے گا تب طالب علم روزگار کے حصول کے لیے اس بات پر مجبور نہیں ہو گا کہ وہ صرف ان موضوعات کے حوالے سے ہی پڑھے جو اسے منڈی میں بہتر داموں فروخت ہونے میں مدد دے سکیں بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنی مرضی کی فیلڈ میں پڑھے گا اور تخلیقات کرے گا۔ یہ صرف چند نوجوانوں پر لاگو نہیں ہو گا بلکہ سب نوجوان اسی تخلیق کاری سے بھرپور اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر شعبوں کا تعین کر پائیں گے اور اسی پاکستانی معاشرے کے اندر تخلیقات، دریافت اور ایجادات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گا جس کا ہم ابھی اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
سوشلزم کے اندر تعلیم سرمایہ داروں کے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے طالب علموں کے شعور کو پراگندہ نہیں کرے گی بلکہ اس کا مقصد لوگوں کے شعور کو جلا بخشنا اور ان کے اندر مزید تجسس اور جاننے کی تحریک پیدا کرنا ہو گا۔ سرمائے کے مفادات اور ریاستوں کے نظریاتی مفادات کے تحت تحقیق پر قدغن نہیں ہو گی۔ سوشلزم کے اندر تاریخ، فلسفہ اور سائنس کو سرمایہ داری کے مفادات کے تحت تنگ نظر نہیں بنایا جائے گا بلکہ حقیقی آزادی، مساوات اور معروضیت کی بنیاد پر تعلیم کو ترتیب دیا جائے گا۔ اسی طرح رسمی منطق اور خیال پرستی کی بجائے جدلیاتی مادیت کے اصولوں پر نصاب کو مرتب کیا جائے گا۔
سوشلسٹ معاشرے کی تعلیم ہمارے موجودہ تعلیمی نظام کے اندر نصابی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر موجود ہر قسم کی تنگ نظری، جھوٹ اور مکر و فریب کی علامات کو مکمل ختم کرے گی اور تمام جھوٹے نظریاتی تعصبات جو طبقاتی سماج، پدرسری، فرقہ واریت، نسل پرستی یا قوم پرستی کے حوالے سے موجود ہیں ان سب کو مکمل ختم کرے گی اور یہ تعصبات چند ہی سالوں میں مکمل طور پر سماج سے ختم ہو جائیں گے۔ آج ہمارے اس تعلیمی نظام میں سائنس اور آرٹس کی تعلیم کے درمیان بہت زیادہ فرق موجود ہے، ایک سوشلسٹ نظام تعلیم میں ان کے درمیان موجود فرق کو بھی ختم کیا جائے گا اور سب سائنسی، فنی، سماجی اور ادبی شعبوں کو اہمیت حاصل ہو گی۔
امیر غریب کے لیے الگ الگ تعلیمی نظام کا خاتمہ اولین کام ہو گا۔ ایک سوشلسٹ معاشرے کے اندر تعلیم مریضانہ انفرادیت نہیں پروان چڑھائے گی۔ کامیابی صرف اچھے نمبروں کے حصول کا نام نہیں ہو گی بلکہ شعوری بڑھوتری کو مطمح نظر بنایا جائے گا۔ آج کا یہ تعلیمی نظام لوگوں میں مریضانہ انفرادیت اور سروائیول آف دی فٹسٹ (Survival of The Fittest) جیسے غلیظ نظریات کی ترویج کر کے لوگوں میں مسابقت بازی پیدا کر رہا ہے۔ لیکن ایک سوشلسٹ نظام تعلیم لوگوں میں مسابقت کی بجائے امداد باہمی کا نمونہ پیش کرے گا۔
رٹے بازی اور بے شعوری انداز میں یاد کر لینے کی بجائے تعلیمی ادارے تحقیق کے میدان میں زیادہ سے زیادہ کام کریں گے اور ہونے والی تحقیق گھٹ کر مر نہیں جائے گی بلکہ وہ سماج کی معیشت، سیاست اور دیگر پہلوؤں میں استعمال ہو گی۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ سوشلسٹ تعلیمی ادارے سیاست کو بری نظر سے نہیں دیکھیں گے بلکہ سماج کے تعلیمی اداروں میں سیاست طلبہ کی تربیت کا ایک اہم جزو ہو گی۔ یونیورسٹی یا دیگر تعلیمی اداروں میں فیصلہ سازی کے امور میں طلبہ کی بھرپور شرکت شامل ہو گی۔ طلبہ یونینز کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری، حقوق اور فرائض دئیے جائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ریاستی امور سے آگاہی دی جائے گی تاکہ وہ نا صرف نئے انسان دوست سماج کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں بلکہ پورے ملک کے اندر سے فکری پسماندگی کے خاتمے کے لیے بھی عملی کردار ادا کریں۔