|تحریر: فضیل اصغر|
حالیہ عرصے میں مختلف یونیورسٹیوں میں جمعیت اور کونسلز کے مابین جھڑپیں دیکھنے کو ملی ہیں، جن میں پنجاب یونیورسٹی لاہور، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد شامل ہیں۔ ان جھڑپوں کے متعلق سوشل میڈیا پر خوب بحث مباحثہ ہوا جس میں دو طرح کے مؤقف دیکھنے کو ملے؛ ایک جمعیت کے مخالف اور کونسلز کے حق میں جبکہ دوسرا کونسلز کے خلاف اور جمعیت کے حق میں۔ اول الذکر میں جمعیت کو ایک فاشسٹ تنظیم اور تعلیمی اداروں میں ایک ناسور قرار دیا گیا، اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں موجود لسانی بنیادوں پر قائم کونسلوں کو اس فاشسٹ تنظیم کے خلاف ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا، کہ یہ کونسلیں ہی ہیں جو تعلیمی اداروں میں طلبہ کے جمہوری حقوق اور آزادیوں کی رکھوالی کر رہی ہیں، اور اگر کونسلیں نہ ہوں تو جمعیت عام طلبہ کو سانس تک نہ لینے دے۔ جبکہ بعد الذکر میں جماعتی میڈیا سیل کی جانب سے یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ کونسلیں لسانی بنیادوں پر قائم گروہ ہیں جو طلبہ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، جبکہ جمعیت ایک ایسی تنظیم ہے جو پاکستان کی سالمیت کی بقا اور طلبہ حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں فریقین کی جانب سے ہر موقع پر دوسرے پر الزام لگایا گیا کہ حملہ اُس نے کیا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب فیسوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے، اور تعلیمی اداروں میں بجٹ کٹوتی اور کرپشن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر طلبہ سے سہولیات چھینی گئی ہیں۔ خاص طور پر آئی ایم ایف کے احکامات پر ترتیب شدہ بجٹ 2021-22ء اور حال ہی میں پیش ہونے والے منی بجٹ میں شعبہ تعلیم ایک لاوارث بچے کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ ایک سلسلہ ہے جس میں ہر بجٹ میں مزید مہنگائی کر دی جاتی ہے اور پھر نت نئے منی بجٹ لا کر مزید ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ ان بجٹوں میں سرمایہ داروں کو مراعات دی جاتی ہیں، ٹیکس چھوٹیں دی جاتی ہیں، اور عالمی و ملکی سرمایہ داروں سے لے کر جرنیل سب اس بہتی گنگا خوب نہاتے ہیں، جبکہ محنت کش عوام پر معاشی بحران کا سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شعبہ تعلیم اور صحت میں کٹوتیاں کی جاتی ہیں۔ جس کے اثرات محنت کشوں کے بچوں پر پڑتے ہیں، کیونکہ خود ”پالیسی سازوں“ کے بچے تو بیرونی ممالک میں رہتے اور پڑھتے ہیں۔
شعبہ تعلیم کو ایک لمبے عرصے سے نظر انداز کرنے کا نتیجہ کرونا وبا کے عرصے میں ہمیں دیکھنے کو ملا جب پاکستان کا نظام تعلیم مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ اُس وقت وزیر تعلیم سے لے کر کسی بھی حکومتی نمائندے یا ادارے کے پاس طلبہ کو تعلیم دینے کیلئے کوئی پلان ہی موجود نہ تھا۔ در حقیقت شعبہ تعلیم میں ہونے والی یہ کٹوتیاں ایک منصوبے کے تحت کی جا رہی ہیں۔ وہ منصوبہ شعبہ تعلیم کو مکمل طور پر پرائیویٹائز کرنے کا ہے، جس کا عملی طور پر آغاز شعبہ صحت میں تو ہوگیا ہے۔ پاکستان کے حکمران آئی ایم ایف کی ایما پر تمام سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں (یعنی خود ہڑپ کرنا)، اسی طرح ان اداروں کی بیش قیمتی زمینوں پر بھی ان کی نظریں ہیں۔ اسی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں میں آئے روز فیسیں بڑھائی جا رہی ہیں اور طلبہ کو پہلے سے میسر سہولیات تیزی سے چھینی جا رہی ہیں۔
آج اُن طلبہ سے 50، 50 اور 60، 60 ہزار روپے فیسوں کی مد میں مانگے جا رہے ہیں جن کے پورے خاندان کی ماہانہ آمدن بھی اس سے کم ہے اور انہی پیسوں میں پورے خاندان کے دیگر اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ یہ دو ہی صورتوں میں کر سکتے ہیں، یا قرضہ لے کر یا پھر چوری ڈکیتی کر کے۔ مہنگائی کے اس عالم میں اب تو وہ لوگ بھی فیسیں ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں جن کی ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ ایسے میں طلبہ کے اندر غم و غصہ اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اوپر سے تعلیمی اداروں کو جیلوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں عام طلبہ کی کوئی جمہوری نمائندگی نہیں ہے۔ پروفیسروں اور انتظامیہ کی جانب سے انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، نمبروں کے نام پر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ بالخصوص طالبات کو بڑے پیمانے پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی بدمعاشیوں، تعلیمدشمن کردار اور نااہلی کا اندازہ ریاست سمیت یونیورسٹی انتظامیہ اور پروفیسر صاحبان سب کو ہے، اور اب وہ طلبہ کے اندر پنپنے والے غم و غصے کو بھی محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی کوشش ہے کہ طلبہ کو کسی بھی بڑے مزاحتمی اقدام اٹھانے سے روکا جا سکے، یا اگر طلبہ ایک ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیتے ہیں تو پھر اسے کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
کیمپس کے اندر سخت سیکورٹی کا نظام طلبہ کی حفاظت کیلئے نہیں ہوتا بلکہ خوف وہراس کی فضا قائم کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ اسی طرح جمعیت جیسی تنظیموں کو بھی تعلیمی اداروں میں ریاستی اداروں اور انتظامیہ کی جانب سے کھلی چھوٹ اسی لیے دی جاتی ہے تا کہ وہ کیمپس کے اندر دنگے فساد کر کے طلبہ میں خوف و ہراس قائم رکھیں۔ جمعیت کی غنڈہ گردی اور طلبہ میں خوف و ہراس پھیلانے کی ایک لمبی تاریخ ہے اور وہ طلبہ کی حقیقی تحریکوں کو کچلنے کے لیے حکمران طبقہ کے آلہ کار کا کردار ایک لمبے عرصے سے ادا کرتی رہی ہے۔ کیمپس میں کسی بھی طرح کی دانشمندانہ گفتگو کو کچلنا اور سماج کے سلگتے ہوئے مسائل پر حقیقی بحثوں کو بزور طاقت روکناجمعیت کا اولین فریضہ ہے۔ جمعیت کو ریاستی اداروں کی جانب سے ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں گھٹن کا ماحول پیدا کر کے رکھیں تاکہ طلبہ آزادانہ سوچ اور سمجھ کے ذریعے حکمران طبقے کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کا کوئی رستہ نہ نکال سکیں۔ اسی لیے ہر قسم کی صحت مند سرگرمی جو طلبہ کی فکرو دانش کو پروان چڑھا سکے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور کلاس روم سے لے کر ہاسٹل کے کمرے اور کینٹین تک ریاست کی مسلط کردہ پولیس فورس کا کردار ادا کیا جاتا ہے۔ اس جبر کا خاتمہ طلبہ کے اتحاد اور نظریاتی جدوجہد کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔
مگر اس ساری صورت حال میں تعلیمی اداروں میں نسلی بنیادوں پر قائم کونسلوں کا کیا کردار ہے؟ حالیہ عرصے میں کونسلوں نے اپنے آپ کو جمعیت مخالف اور طلبہ حقوق کی علمبردار بنا کر پیش کیا ہے۔ یکے بعد دیگرے مختلف یونیورسٹیوں میں جمعیت کے ساتھ ان کی مڈ بھیڑ ہوئی ہے۔ اسی طرح قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سمیت کئی اور یونیورسٹیوں میں مختلف کونسلوں کے اتحاد بنائے گئے ہیں، اور ان اتحادوں کی بنیاد جمعیت کی مخالفت بتائی گئی ہے۔ یہاں سب سے پہلے ہمیں ان کونسلوں کے کردار پر بات کرنا ہوگی، اس کے بعد ہی موجودہ صورت حال کا درست انداز میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
کونسلیں در حقیقت طلبہ یونین پر لگنے والی پابندی کے بعد کے عرصے کی پیداوار ہیں۔ وہ عرصہ جس میں طلبہ سیاست کو بدنام کیا گیا اور جمعیت جیسی تنظیموں کی بنیاد پر کیمپس میں اسلحہ کلچر لا کر طلبہ سیاست کو دنگے فساد کے ساتھ منسوب کر دیا گیا۔ اس عرصے میں کیمپسز میں الیکشن ہونا تو بند ہوگئے، یعنی طلبہ کی جمہوری نمائندگی تو ختم ہو گئی مگر حکمرانوں نے اپنی پالتو تنظیموں جن میں جمعیت سرفہرست ہے، کو کھلی چھوٹ دی۔ ایسے ماحول میں مختلف کونسلوں کا جنم ہوا۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے وہ طلبہ جو کسی دوسرے صوبے یا شہر میں کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے جاتے وہ طلبہ یونین کی عدم موجودگی میں وہاں اپنی سیکورٹی اور دیگر آسانیوں کیلئے مختلف لسانی کونسل کا حصہ بن جاتے، اور یہ کونسلیں اپنے ممبران کو مختلف طرح سے مدد فراہم کرتیں جیسے ہاسٹل کا کمرہ لے کر دینا وغیرہ۔ مگر جوں جوں ان کی تعداد اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا چلا گیا توں توں انتظامیہ کی نظریں بھی ان پر پڑنے لگیں۔ اس طرح دھڑا دھڑ انتظامیہ اپنی اندرونی لڑائیوں کیلئے انہیں استعمال کرنے لگی، جس میں کیمپس کے اندر لڑائیاں کرانا وغیرہ شامل ہے۔ اس کے عوض انہیں کچھ چھوٹی موٹی مراعات بھی دی جاتی رہیں۔
بہر حال اس سارے عرصے میں انتظامیہ کا اصل ہتھیار جمعیت ہی رہی۔ مگر پچھلے لمبے عرصے سے بار بار استعمال ہونے کی وجہ سے عام طلبہ کے سامنے جمعیت کا حقیقی چہرہ عیاں ہوتا گیا۔ اب جمعیت ایک چلا ہوا کارتوس ہی رہ گیا۔ لہٰذا پچھلے چند سالوں میں بھرپور کوششیں کی گئیں کہ جمعیت کا دوبارہ احیاء کرایا جا سکے۔ جس کیلئے کروڑوں روپے لگا کر پاکستان کے تمام شہروں میں اس کے کنوشن کرائے گئے، کرکٹ ٹورنامنٹ کرائے گئے، اور دیگر ایسے پروگرام منعقد کیے گئے۔ اسی طرح یونیورسٹیوں کے اندر جمعیت کے نام پر بڑے سے بڑا کام بڑی آسانی سے کر دیا جاتا۔ اس طرح جمعیت کو طلبہ دوست بنا کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اتنا پیسہ لگانے کے باوجود بھی جب طلبہ کے اندر جمعیت کیلئے نفرت کو کم نہ کیا جا سکا تو دوسرا طریقہ اپنایا گیا۔ اب کی بار جمعیت اور کونسلوں کے مابین لڑائیاں کروائی گئیں۔ ان لڑائیوں میں کونسلوں کو ”جمہوری اور طلبہ دوست“ بنا کر پیش کیا گیا، اور ان کے اتحاد بنائے گئے۔ یہ ”گُڈ کاپ، بیڈ کاپ (Good Cop, Bad Cop)“ کی پالیسی ہے۔ یہ پالیسی اکثر پولیس والے استعمال کرتے ہیں جس میں ایک پولیس والا متاثرہ شخص کا بظاہر دوست بن جاتا ہے جبکہ دوسرا انتہائی سختی سے باز پرس جاری رکھتا ہے اورضرورت پڑنے پر تشدد سے بھی گریز نہیں کرتا جبکہ حتمی مقصد دونوں کا متاثرہ شخص پر حکمرانوں کا جبر مسلط کرنا ہی ہوتا ہے۔ یقینا یہ پالیسی کسی اتفاق رائے یا کانفرنس کے بعد نہیں بنی بلکہ وقت اور حالات نے مختلف تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو اس جانب بڑھنے پر مجبور کیا ہے اور اس میں انتظامیہ کی کرپشن اور لوٹ مار پر ہونے والی اندرونی لڑائیوں کا بھی اہم کردار ہے۔ بہر حال اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب پالیسی سازوں کا ایک بڑا دھڑا کونسلوں کے ذریعے طلبہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مختلف کونسلوں کے اکثر لیڈران بھی اپنی خدمات ان طلبہ دشمن اقدامات کے لیے انتظامیہ کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ عمل پاکستان کی تقریباًتمام یونیورسٹیوں میں جاری نظر آتا ہے۔
یہاں ایک اور اہم پہلو بھی ہے جو زیر بحث ضرور آنا چاہیے، وہ ہے اس ساے عرصے میں طلبہ کا ردعمل۔پچھلے چند سالوں میں لگاتار فیسوں میں ہونے والے اضافے سے لے کر جنسی ہراسانی کے واقعات کے خلاف ملک بھر کے طلبہ کی جانب سے بھرپور احتجاج دیکھنے کو ملے۔ یہ احتجاج طلبہ کی جانب سے خود رو انداز میں کیے گئے۔ ان ”تمام“ احتجاجوں پر جمعیت کا ”رتی بھر“ بھی اثر رسوخ نہیں تھا۔ اسی طرح ان تمام احتجاجوں میں بائیں بازو کی تنظیموں نے ہراول دستے کا کردار نبایا، جن میں پروگریسو یوتھ الائنس سر فہرست ہے۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے ہر احتجاج میں پی وائی اے کے کارکنان موجود رہے اور تقریباً ہر جگہ پر قیادت کے فرائض سرانجام دیے۔ اسی لیے انتظامیہ کے سنجیدہ پالیسی ساز اب لیفٹ کے خلاف اپنی تابعدار تنظیم یا گروہ کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے طلبہ یونین پر عائد پابندی کی وجہ سے اب ان کے پاس ایسی کوئی تابعدار تنظیم رہ بھی نہیں گئی اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سٹوڈنٹ ونگ جرائم اور کرپشن کی دلدل میں غرق ہو کر ختم ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب کی بار کونسلوں (گُڈ کاپ) کو جمعیت (بیڈ کاپ) کے مقابلے میں لا کر تھوڑا زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس عمل میں پاکستان کی نام نہاد ”بائیں بازو“ کی تنظیمیں بھی ”فسطائیت“ کا مقابلے کرنے کے نام پر محض جمعیت مخالفت کی بنیاد پر سب کو اکٹھا ہونے کا درس دے رہی ہیں اورموجودہ صورتحال کا حقیقی سائنسی تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں جمعیت کی طلبہ میں بالکل بھی حمایت موجود نہیں اور وہ صرف انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی جانب سے مسلط کردہ کیمپس پولیس کا ہی کردار ادا کررہی ہے اور طلبہ کی ایک بہت بڑی اکثریت اسے اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ طلبہ کی حمایت حاصل کرنے میں مسلسل ناکامی نے جمعیت کو فرسٹریشن میں مبتلا کر دیا ہے، وہ اب اپنی بقاء کی خاطر انتہائی اقدام اٹھا رہی ہے۔ یہ یقینا اس کی کمزوری کی نشانی ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی انتظامیہ بھی ریاست اور حکمران طبقے کا ہی ایک بدصورت عکس ہے، ایک آلہ۔ طلبہ کو خوفزدہ رکھنا اور انہیں سماجی گھٹن اور جبر کے ماحول میں قید رکھنا درحقیقت باقاعدہ طور پر ریاستی پالیسی ہے۔اس کے لیے طلبہ کو فروعی تقسیموں میں الجھانا، انہیں آپس میں لڑوا کر ان کے اتحاد کو کمزور کرنا یا ان کی ابھرنے والی قیادت کو کرپٹ کرنا اور انہیں چھوٹی چھوٹی مراعات اور لالچ دے کر انتظامیہ کا مطیع بنانااور پھر ان لیڈروں کو اپنے گماشتے کے طور پر طلبہ پر مسلط کرتے ہوئے تحریکوں کو زائل کروانا انتظامیہ کے پرانے ہتھکنڈے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ترقی پسند نظریات کے خلاف رجعتی نظریات کا فروغ بھی انتظامیہ کا پرانا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے طلبہ تحریکوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ طلبہ کو ان تمام ہتھکنڈوں کو رد کرنے کی جانب بڑھنا ہوگا اور جہاں اپنے کھلے دشمنوں کے خلاف لڑائی لڑنی ہو گی وہاں بھیڑیے سے ملی ہوئی بھیڑوں کو بھی پہچاننا ہوگا اور ان کی حقیقت عام طلبہ پر واضح کرنی ہوگی۔
آنے والے عرصے میں پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے مزید فیسوں میں اضافہ کیا جائے گا اور طلبہ سے مزید سہولیات چھینی جائیں گی۔ حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ شعبہ تعلیم کی مکمل طور پر نجکاری کر دی جائے اور اپنے آپ کو اس بنیادی ذمہ داری سے بری الذمہ کر دیا جائے۔ ایسے میں ملک بھر کے طلبہ کو اس پالیسی کے خلاف متحد ہونا ہوگا اور صرف اپنے تعلیمی ادارے تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک گیر سطح پر اتحاد قائم کر کے ایک ملک گیر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ اسی صورت ہی طلبہ کے بنیادی جمہوری حق ’’طلبہ یونین‘‘ کو بحال کرایا جا سکتا ہے۔ اور چونکہ یہ جدوجہد پاکستان کے پالیسی سازوں یعنی حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے لہٰذا طلبہ کو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے بھی خود کو لیس کرنا ہوگا تاکہ اس نظام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے جو ایسی طلبہ دشمن قوتوں کو جنم دیتا ہے۔