محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تاریخ 

|تحریر: آمنہ فاروق|

ہمارے مورخ یو ں تو بیش بہا مو ضوعات پر لکھتے پائے جاتے ہیں لیکن ان کے قلم کبھی محنت کش طبقے کی تاریخ رقم نہیں کرتے۔ مورخین ہو ں یا صحافی، مصنف ہو ں یا شا عر سبھی بورژوا طبقے کے لئے جانبدار اور وفادار ہیں۔ اسی لئے ہمیں کسی نصاب، کسی لٹریچر میں محنت کش طبقے کی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر نہیں ملتا یا محنت کش طبقے کی عظمت میں لکھا ہوا نہیں ملتا۔ اس سب کے باوجود تاریخ کے پنوں سے چند عظیم واقعات کو نہیں مٹایا جا سکتا۔ ان عظیم واقعات میں سے ایک دن محنت کش خواتین کا عالمی دن بھی ہے۔ یہ دن عالمی پرو لتاریہ خو اتین کی طاقت اور ان کے اتحاد کی یاد میں منایا جانے والا ایک دن ہے۔ لیکن یہ خالصتاً خواتین کے لئے ہی مخصوص دن نہیں ہے بلکہ خواتین کا عالمی دن روس کے محنت کشوں، کسانوں اور پوری دنیا کے محنت کشو ں کے لئے ایک یادگار دن ہے۔ اس دن 1917ء کے عظیم انقلاب کا آغاز ہوا تھا اور یہ پیٹرز برگ کی محنت کش خواتین تھیں جنہوں نے انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ بنیادی طور پر اس جدوجہد کا آغاز پہلی بار 1857ء میں نیویارک میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ خواتین نے کیا۔ اجرتوں میں اضافے، کام کے اوقات کار میں کمی اور ووٹ کے حق کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ بعد ازاں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے ان خواتین کی جدوجہد کی یاد میں خواتین کے دن کی بنیاد رکھی۔ 1910ء میں دوسری انٹرنیشنل کی ایک کانفرنس میں کلارا زیٹکن نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی تجویز دی اور عالمی سطح پر اس دن کو منظم کرنے کے لئے جد وجہد کا آغاز کیا ۔ 

اس عہد میں سر مایہ داری نے اپنی ضرورتوں کے تحت خواتین کو بھی معاشی سرگرمیوں میں شامل کر دیا تھا۔ ہر سال فیکٹریوں اور ورکشاپس میں کام کر نے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مرد محنت کشو ں کے ساتھ ساتھ خواتین محنت کش بھی ملک کی دولت پیدا کر نے میں اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ لیکن ابھی تک خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ پھربڑھتی ہوئی قیمتو ں اور دیگر معاشی وجوہات کی بنا پر انتہائی پر امن گھریلو خواتین بھی سیاست کی طرف راغب ہونے لگیں اور بورژوا معیشت کے خلاف احتجاج کر نے لگیں۔ خاص کر ہمیں آسٹریا ، انگلینڈ، فرانس اور جرمنی میں گھریلو خواتین میں سیاسی ابھار نظر آیا۔ دوسری انٹرنیشنل میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ محنت کش خواتین کے عالمی دن کو خواتین کو سیاسی طور پر منظم کر نے کے لئے ایک فورم کے طور پر استعمال کیا جائے اور محنت کش خواتین کو سوشلزم کے بینر تلے متحد کیا جائے۔ اس طرح پہلا خواتین کا عالمی دن 19مارچ1911ء کو جرمنی اور آسٹریا میں منایا گیا۔ جہاں اس دن کو منانے کے لئے بھرپور سیاسی تیاریاں کی گئیں۔ یہ دن توقعات سے بڑھ کر کامیاب ہوا۔ اور خواتین کا ایک سمندر امڈ آیا۔ امریکہ اور یورپ میں اس دن کے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ بورژوازی ان تمام مطالبات کے اوپر سنجیدگی سے سو چنے پر مجبور ہوئی۔ ’’ویمن ڈے‘‘ کو منظم کر نے کے لئے جو میٹنگز، احتجاج اور مظاہرے کئے جاتے اور جو مواد شائع کیا جاتا اس سے عمومی سیاسی شعور میں اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ پسماندہ خواتین بھی اس دن کو اپنے خصوصی تہوار کے طور پر دیکھتیں۔ جس سے مجموعی طور پر محنت کش طبقے کی طاقتوں میں اضا فہ ہوا جو کہ بہترمستقبل کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ 

1913ء میں روس میں جب اس دن کو منانے کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوا تو کوئی کھلے عام احتجاج یا مظاہروں کے لئے سازگار ماحول نہ تھا ۔ زار کے جبر کی وجہ سے اندرونی طور پر ہی میٹنگز کا انعقاد کیا جاتا اور بالشویکو ں کے رسالے پراودا میں با قاعد ہ اس دن کے حوالے سے مضامین لکھے جاتے۔ بعض اوقات کسی اجلاس میں بولنے والوں کو ہی پولیس پکڑ کے لے جاتی تھی۔ 1914ء میں نسبتاً بہتر طور پر اس دن کو منا یا گیا۔ پھر 1917ء کا عظیم سال آیا جب جنگ کے باعث محنت کش طبقہ زیادہ گھٹن زدہ حالات سے گزر رہا تھا اور اس کے باعث محنت کشو ں میں شدید غم و غصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 1917ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین بہادری سے پیٹرو گراڈ کی گلیوں میں نکل آئیں۔ اور مرد محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کی اور زار حکومت کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے انقلاب کا آغاز کیا۔ جنگ میں خواتین نے نہ صرف ووٹ کا حق حاصل کیا بلکہ دیگر تمام سیاسی و سماجی حقوق بھی حاصل کئے۔ اکتوبر انقلاب نے یہ ثابت کر دیا کہ محنت کشو ں کی صدیو ں کی غلامی سے نجات کی واحد ضمانت پرولتاریہ کی آمریت ہے۔ اس دن کا آج پھر یہی تقاضہ ہے کہ سرمایہ داری کو مکمل طور پر اکھاڑ پھینکا جائے اسی صورت میں مرد و زن حقیقی معنوں میں آزاد ہو نگے۔ آج بھی یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی بلکہ سرمایہ داری پہلے سے زیادہ بے رحم اور خونخوار ہوچکی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے نہ صرف محنت کش طبقہ کے معیار زندگی کو پست کر ڈالا ہے بلکہ اسے بربادی میں دھکیل دیا ہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین اس وقت دنیا کا دو تہائی کام کرتی ہیں لیکن دنیا کی آمدن کا محض 10فیصد وصول کرتی ہیں۔ مثلاً دنیا بھر کی خوراک کا نصف حصہ خواتین پیدا کرتی لیکن خود خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ ہر سال ایک ملین سے زیادہ خواتین زچگی کے دوران پیچید گیوں سے مرجاتی ہیں۔ ریپ کیس اور دیگر مسائل کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں ہمیں تمام احتجا جوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ محنت کشوں کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے سماج میں وسائل موجود نہیں بلکہ حکمران طبقے کی ترجیحات صرف اپنی شرحِ منافع میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا ہے جبکہ انسان بھلے بھیڑ بکریو ں کی طرح مرتے رہیں۔ ان تمام مسائل کے خاتمے کے لئے اور ایک بہتر زندگی کے لئے، محنت کش طبقے کو عالمی سطح پر یکجا ہو کر اس طبقاتی نظام کے خلاف لڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ امریکہ میں خواتین کے لانگ مارچ ہوئے یہ سب تبد یلی کی خواہش کی غمازی کرتا ہے۔ ایک بار پھر خواتین خود کو سیاسی طور پر منظم کر رہی ہیں۔ آنے والے وقت میں محنت کش طبقے کی اٹھنے والی تحریکوں میں محنت کش خواتین کا ہر اول کردار ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.